Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاحوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، مری انتظامیہ کا اصرار

گزشتہ ہفتے رونما ہونے والے مری سانحہ میں کم ازکم 22 ہلاکتوں کے بعد حکومتی ترجمان اس کی مختلف توجہیات کر رہے ہیں اور اس میں موسم کی شدت کے ساتھ ساتھ سیاحوں کو الزام دینے کا سلسلہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ 
مری انتظامیہ کی نگرانی پر مامور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ریٹائرڈ) قاسم اعجاز نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ انتظامیہ نے برف باری کے لیے مکمل منصوبہ بندی کی تھی مگر ایک تو ریکارڈ برف باری ہوئی دوسرا سیاح برف دیکھنے کے لیے ہوٹلوں سے بھی نکل پڑے اور انتظامیہ کے اصرار کے باجود گاڑیوں میں بیٹھنے پر مصر رہے۔

ایک ایک گاڑی کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر لوگوں نے گاڑیاں نہ چھوڑیں

مری میں اردو نیوز کو انٹرویو میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ہمیں بھی افسوس ہے کہ 22 جانوں کا ضیاع ہوا مگر ہم نے 40 ہزار جانیں بچائی بھی ہیں ہماری پولیس تھی، ٹریفک پولیس تھی اور سول ڈیفنس تھی جس نے پوری کوشش کی۔
 ’ہمارے اسٹنٹ کمشنرز نے ایک ایک گاڑی جو وہاں کھڑی تھی اس کا دروازہ کھٹکھٹا کر کہا کہ آپ برائے مہربانی ہمارے ساتھ چلیں تو ہم آپ کو کسی عمارت تک پہنچا دیتے ہیں۔‘
’مگروہ مانے نہیں، یقینا ہم  بھی اپنی گاڑیوں کو اپنی چیزوں کو اپنے مال و متاع کو چھوڑنے میں تامل سے کام لیتے ہیں
کیا برف باری کے لیے منصوبہ بندی ہوئی تھی؟
ان سے پوچھا گیا کہ مری میں برف کے سیزن سے قبل ہر سال منصوبہ بنتا ہے کیا اس سال کوئی منصوبہ بندی ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی برف باری کے موسم کے لیے منصوبہ بنا تھا اور اس سلسلے میں تین اجلاس بھی ہوئے تھے ایک مری میں اور دو راولپنڈی میں مگر یہاں پر جتنی اوسط برف باری ہوتی ہے اس سال اس سے بہت زیادہ ہوئی ہے۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ہمیں پہلی اطلاع ملی تھی اسی وقت تمام داخلی راستوں پر چیک پوسٹیں لگا دی تھی

ان کا کہنا تھا کہ آٹھ جنوری کو ایک دن 17 انچ برف باری ہوئی جو 25 سال کا ریکارڈ تھا جو یہاں کے مقامی لوگ بھی مانتے ہیں۔ ’وہ برف باری نہیں تھی برفانی طوفان تھا جیسا کہ ویڈیوز میں بھی نظر آ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ہمیں پہلی اطلاع ملی تھی اسی وقت تمام داخلی راستوں پر چیک پوسٹیں لگا دی تھی اور ڈی سی آفس میں کنٹرول روم قائم کر دیا گیا تھا۔ ’اسی طرح جو ہمارا ہائی وے کا شعبہ ہے اور دیگر جتنے بھی ادارے ہیں ان سب کو اسی وقت متحرک کر دیا گیا تھا۔ ریسکیو 1122 کی گاڑیاں بھی آگئیں تھیں اور اس کے ساتھ ہی ہم نے ایک شٹل سروس کا بھی بندوبست کر دیا تھا۔‘
’عوام کو آگاہی نہ تھی‘
ان سے پوچھا گیا کہ کیا انتظامیہ کو مری میں گاڑیوں کی گنجائش کا پتا نہیں تھا تو پھر ان کو یہاں آنے سے کیوں نہیں روکا گیا؟ تو کیپٹن (ریٹائرڈ) قاسم اعجاز کا کہنا تھا کہ بہت سارے آنے کے راستے تھے ہم نے اسی وقت روک دیا تھا لیکن ہمارے سیاح پہلے ہی مری میں ٹھیک موسم میں داخل ہو گئے تھے اور تب سے رہ رہے تھے وہ اصل میں باہر نکلے ہیں۔
’باہر آنے والوں کا رش پڑنے سے پہلے ہی لوگ ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے تھے تقریبا 30 ہزار کے قریب۔‘ ان کا کہنا تھا کہ  ​’ہماری عوام کو آگاہی نہ تھی اور یہاں رش ہو گیا اور ہر کوئی سڑکوں پر آگیا اور بہت رش ہو گیا۔

ایڈیشنل  ڈپٹی کمشنر کے مطابق ہمارے اسٹنٹ کمشنرز نے ایک ایک گاڑی جو وہاں کھڑی تھی اس کا دروازہ کھٹکھٹا کر کہا کہ آپ برائے مہربانی ہمارے ساتھ چلیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے کہا کہ یہاں سڑک کا ایک چھوٹا سا (سڑک) ٹکڑا تھا وہ تنگ ہے، برف پڑگئی تو فورا ہی سب اپنے ہوٹلوں سے باہر نکل کر آگئے جس کی وجہ سے ٹریفک اتنی جام ہو گئی تھی کہ ہمارے ریسکیو کے لوگوں کے لیے بھی وہاں پہنچنا مشکل ہو گیا تھا۔
انہوں نے دعوی کیا کہ ’راتوں رات جتنی بھی ہائے وے کے محکمے کی مشینری تھی ہم لوگوں نے متحرک کروا دی تھی۔ ہمارے افسران جو یہاں کے اسسٹنٹ کمشنر (اسے سی) ہیں اور اس کے علاوہ دو اور اے سیز دوسری تحصیلوں سے بلائے تھے۔ اس کے علاوہ ایک کنٹرول روم مری میں ایک ڈی سی آفس راولپنٖڈی میں بنا دیا تھا۔‘
مری میں ہوٹلوں اور اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کیوں نہیں؟
ان سے پوچھا گیا کہ مری میں ہوٹلوں اور دیگر کاروباروں کی جانب سے سیاحوں کو لوٹنے کے واقعات کی شکایات پر انتظامیہ کیوں ایکشن نہیں لتی تو ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ ہم بھی سوشل میٖڈیا پر دیکھ رہے ہیں اور ہمیں خبر مل رہی ہے مگر اس میں جو ہمیں مخصوص اطلاعات ملتی ہیں تو اس پر ایکشن ہوتا ہے۔
’ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ ہم نے انہیں بتایا ہے کہ اب ہم انہیں ریگولیٹ بھی کریں گے اور جو مخصوص شکایات آ رہی ہیں ہم ان کے خلاف ایکشن بھی لیں گے۔‘

شیئر: