Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سانحہ مری: جوڈیشل انکوائری اور کمیشن آف انکوائری میں فرق کیا ہے؟

عوامی حلقوں اور اپوزیشن کی جانب سے مری واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سیاحتی مقام مری میں شدید برف باری کے باعث 23 افراد کی ہلاکت کے بعد حکومت نے انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے جو مختلف سوالات کے جواب تلاش کرکے اپنی تجاویز دے گی۔
تاہم عوامی حلقوں اور اپوزیشن کی جانب سے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ سامنے آیا ہے بلکہ پاکستان میں ہر بڑے واقعے کے بعد ایسے ہی مطالبات سامنے آتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلا جوڈیشل کمیشن ملک کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات کے لیے بنایا گیا تھا جبکہ ماضی قریب میں ماڈل ٹاون، اے پی ایس حملہ کیس، براڈ شیٹ جوڈیشل انکوائری کمیشن اور اسامہ ستی قتل کیس پر جوڈیشل انکوائری کروائی گئی۔ بینظیر قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری بھی اس کی ایک مثال ہے۔
جوڈیشل انکوائری کیا ہوتی ہے؟ جوڈیشل انکوائری، عام انکوائری اور جوڈیشل کمیشن کے ذریعے انکوائری میں فرق کیا ہوتا ہے؟ اور ان کی سفارشات پر عمل درآمد کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے؟
ماہر قانون اکرام چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بنیادی طور پر انتطامی آرڈرز کے تحت جوڈیشل انکوائری کروائی جاتی ہے جس میں کسی بھی جوڈیشل آفیسر کو مقرر کر دیتے ہیں جو یہ دیکھتا ہے کیا ہوا؟ کیوں ہوا اور کیا ہوسکتا تھا؟ یہ انکوائری بنیادی طور پر جرائم کے واقعات پر کی جاتی ہے۔ 
جوڈیشل انکوائری اور کمیشن آف انکوائری میں فرق؟
کسی بھی عوامی اہمیت کے معاملے میں محکمانہ غفلت جانچنے یا حقائق کا جائزہ لینے کے لیے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے تاہم قانون کی زبان میں اسے جوڈیشل کمیشن نہیں کہا جاتا بلکہ کمیشن آف انکوائری کہا جاتا ہے۔ جوڈیشل انکوائری صرف قابل دست اندازی جرائم میں پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت، کوتاہی یا کردار کا تعین کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔
کمیشن آف انکوائری کا قیام ایکٹ کے ذریعے عمل میں لایا جاتا ہے جو پہلے 1956 کا لاگو تھا جبکہ اب 2017 کا ایکٹ نافذالعمل ہے۔ جس کے لیے حکومت خود ہی ٹی او آرز بھی دیتی ہے جن کی روشنی میں کمیشن تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ مرتب کرتا ہے۔ کمیشن آف انکوائری ریٹائرڈ جج، یا حکومت سمجھے تو حاضر سروس جج پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے۔ حاضر سروس جج کی خدمات حاصل کرنے کے لیے حکومت کو متعلقہ چیف جسٹس سے درخواست کرنا پڑتی ہے۔
 انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن کے ارکان کی تعداد ایک یا اس سے زائد بھی ہو سکتی ہے ارو اس میں ججز کے علاوہ بھی افراد کو شامل کیا جا سکتا ہے۔  
پاکستان میں مشہور ترین کمیشن آف انکوائری میں سقوط ڈھاکہ سے متعلق بننے والا حمودالرحمان کمیشن، جسٹس منیر کمیشن، ایبٹ آباد آپریشن کمیشن، 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق کمیشن اور لاپتا افراد سے متعلق کمیشن شامل ہیں۔ حالیہ تاریخ میں اس کی مثال چینی کی ذخیرہ اندوزی سے متعلق انکوائری کمیشن ہے۔
ایڈووکیٹ عمر گیلانی کہتے ہیں کہ جوڈیشل انکوائری ان جرائم کے تناظر میں کی جاتی ہے جیسے پولیس کی تحویل میں کسی فرد کے ہلاک ہو جانے، کسی علاقے میں غیرمعمولی قتل و غارت جہاں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت کا تعین کرنا ہو جوڈیشل انکوائری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی معاملے کی انکوائری کمیشن آف انکوائری کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔
انتظامی انکوائری
مری کے واقعے پر حکومت نے بیوروکریسی کے افسران کی پر مشتمل کمیٹی بنائی ہے جب کہ پیر کو قومی اسمبلی میں خطاب میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی اسے گھناؤنا مذاق قرار دیا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق کسی بھی مسئلے پر حکومت سول سروس کے افسر یا افسران کے ذریعے انکوائری کروائے تو اسے عام انکوائری، محکمانہ یا انتظامی انکوائری کہتے ہیں۔

جوڈیشل انکوائری صرف قابل دست اندازی جرائم میں پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت، کوتاہی یا کردار کا تعین کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ماہرین کے مطابق انتظامی انکوائری محکمانہ قوانین کے تحت ہوتی ہے جن میں کارکردگی اور نظم و نسق قواعد کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ ان قوانین کے تحت انکوائری کمیٹی کسی معاملے میں متعلقہ افسران کی کارکردگی اور ذمہ داریوں کا جائزہ لے کر ان میں کسی غفلت اور کوتاہی کی نشان دہی کرتی ہے۔
انکوائری کی سفارشات پر عمل درآمد کیسے ہوتا ہے؟
ماہرین کے مطابق حکومت کمیشن آف انکوائری کی سفارشات پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہوتی بلکہ زیادہ تر تو رپورٹ سامنے ہی نہیں لائی جاتی۔  پاکستان کی تاریخ میں دیکھا جائے تو لیاقت علی خان قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری ہو یا سقوط ڈھاکہ سے متعلق حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ، اس پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا۔
ماہرین قانون کے مطابق کوئی بھی انکوائری کمیٹی یا کمیشن جب انکوائری کرتا ہے تو وہ اپنی رپورٹ مرتب کرتا ہے۔ حقائق کا جائزہ لینے کے بعد اپنی سفارشات مرتب کرتا ہے اور بعض اوقات ذمہ داروں کا تعین بھی کر دیتا ہے لیکن حکومتیں ضروری نہیں ہے کہ اس پر عمل درآمد کی پابند ہوں۔
ماہر قانون چوہدری اشرف گجر کا کہنا ہے کہ ’کمیشن آف انکوائری کا کام رپورٹ مکمل کرنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے، تاہم حکومتیں بعض اوقات ان کی سفارشات پر مزید تادیبی کارروائی کرتی ہیں اور بعض اوقات چپ سادھ لیتی ہیں۔‘
ایڈووکیٹ عمر گیلانی اور اکرام چودھری کے مطابق کمیشن آف انکوائری کی رپورٹس اور سفارشات پر عمل درآمد کم ہی ہوتا ہے تاہم بیوروکریسی کی انکوائری میں عمل درآمد کی رپورٹ جمع کرانا ہوتی ہے۔ اس لیے فرضی ہی سہی کچھ نہ کچھ کارروائی ہوتی ضرور ہے۔ 

شیئر: