Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمن بارڈر پر’تذکرہ کا نظام‘ تاحال معطل، سرحدی علاقے کے رہائشی مشکلات کا شکار

حاجی آدم خان کے مطابق اب تاجروں اور مزدوروں کو سرحد پار کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن سرحد کے دونوں اطراف کے مقامی باشندوں کی روزانہ کی بنیاد پر آمدورفت بحال کرنے کے احکامات پر تاحال عمل در آمد نہیں ہو سکا۔
دونوں ملکوں کے شہریوں کے درمیان سرحدی باڑ سے قبل معمول کی آمدورفت تھی بلکہ مزدوری اور کھیتی باڑی کے لیے ہزاروں افراد پاسپورٹ کے بغیر سفر کرتے تھے۔
باڑ لگنے کے بعد تمام کراسنگ پوائنٹس بند کر دیے گئے اور یوں دونوں اطراف کے مقامی باشندے نہ صرف معاشی طور پر متاثر ہوئے بلکہ سرحدی دیہات میں رہنے والے رشتہ دار بھی ایک دوسرے سے دور ہوگئے۔
مقامی ارکان پارلیمنٹ بھی نہ صرف باڑ لگنے سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم کے احکامات پر جلد از جلد عمل کیا جائے۔
بلوچستان سے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چمن اور قندھار کے سرحدی علاقوں میں ہزاروں خاندان آباد ہیں جو ایک دوسرے کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ پاکستان سے بچیوں کے رشتے افغانستان میں اور وہاں سے پاکستان میں ہونا معمول کی بات ہے۔‘
’کچھ خاندانوں کی زمینیں افغانستان میں ہیں اور افغان خاندانوں کی زمینیں پاکستان میں ہیں۔ باڑ کی تقسیم سے قبل ہر کوئی باآسانی اپنی زمینوں پر جا کر کھیتی باڑی کرتا تھا لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ یا تو انہیں اپنی زمین پر جانے کے لیے کئی سو کلومیٹر سفر کرنا پڑتا ہے یا پھر وہ اپنی زمین بیچنے یا ٹھیکے پر دینے پر مجبور ہیں۔ حکومت کو جلد از جلد اس کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔‘
واضح رہے کہ 2600 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد کا تقریباً 1270 کلومیٹر حصہ بلوچستان سے لگتا ہے۔
بلوچستان کے ضلع چمن، قلعہ عبداللہ اور پشین میں کئی ایسے گاؤں ہیں جو باڑ لگنے کے بعد تقسیم ہوگئے اور اب لوگوں کی آمدروفت کے لیے چمن کی مرکزی سرحدی گزرگاہ رہ گئی ہے مگر اس راستے سے بھی آمدروفت اب کسی امتحان سے کم نہیں۔

سرحدی علاقوں کے رہائشی بھی کراسنگ پوائنٹس کھولنے اور بغیر پاسپورٹ سفر کی اجازت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

صرف چمن کے آٹھ ایسے گاؤں ہیں جہاں باڑ لگنے کے بعد آدھے گھر اس طرف اور آدھے گھر دوسری طرف رہ گئے۔
محکمہ داخلہ و قبائلی امور بلوچستان کے مطابق حکومت نے ان متاثرہ مکانات کے رہائشیوں میں تلافی کی مد میں کروڑوں روپے تقسیم کر دیے ہیں۔
کلی لقمان کے رہائشی ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت نے انہیں صرف تعمیر شدہ حصے کی رقم فراہم کی ہے۔
’ہماری جو ایکڑوں زمین دوسری طرف رہ گئی ہیں اس کا معاوضہ دیا گیا اور نہ ہی ہمیں وہاں تک جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔‘
چمن میں پاک افغان سرحد پر آٹھ کراسنگ پوائنٹس بنائے گئے ہیں مگر اب تک ان میں سے کسی بھی گیٹ پر آمدروفت کی اجازت نہیں۔
اردو نیوز نے چمن کے رہائشیوں سے بھی بات چیت کی جن کی زمینیں افغانستان کی طرف ہیں یا پھر ان کی رشتہ داریاں آر پار ہیں۔ سرحدی علاقوں کے یہ رہائشی بھی کراسنگ پوائنٹس کھولنے اور بغیر پاسپورٹ سفر کی اجازت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
چمن کے رہائشی حاجی محمد کبیر ملیزئی نے بتایا کہ ان کی توبہ اچکزئی اور چمن میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے ملحقہ علاقے میں آباؤ اجداد کی سینکڑوں ایکڑ اراضی ہیں جو اب باڑ لگنے سے منقسم ہوگئی ہیں۔
’پہلے ہم گرمیوں میں سرد علاقے توبہ اچکزئی اور سردیوں میں گرم علاقے کلی جلال الدین میں رہتے تھے۔ مگر سرحد پر باڑ لگنے کے بعد کلی جلال الدین میں ہماری سینکڑوں ایکڑ اراضی افغانستان کی طرف رہ گئی ہیں جہاں ہمارے اور ہمارے بچوں کے لیے جانا انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’باڑ سے دوسری طرف ہماری زمین صرف چار سے پانچ کلومیٹر فاصلے پر ہے مگر ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ 70 سے 80 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے آمدروفت کے لیے مختص مرکزی سرحدی دروازے باب دوستی سے آیا جایا کریں۔‘
محمد کبیر ملیزئی کے مطابق ہمارے لیے فاصلے اتنے بڑھا دیے گئے ہیں کہ ہم اپنے رشتہ داروں سے مل سکتے ہیں اور نہ ہی وہاں اپنی زمینیں کاشت کر سکتے ہیں۔ سرحد پر رکاوٹیں کھڑی ہوئیں اور ہمارا جانا کم ہوگیا تو افغانستان میں لوگوں نے ہماری زمینیں پر بھی قبضہ کر لیا جو بعد میں بڑی مشکلوں سے واگزار کروائیں اور اب ہم نے اسے کاشت کاری کی غرض سے سالانہ اجارہ (لیز) پر دے دی ہے۔

چمن میں پاک افغان سرحد پر آٹھ کراسنگ پوائنٹس بنائے گئے ہیں مگر اب تک ان میں سے کسی بھی گیٹ پر آمدروفت کی اجازت نہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ایک اور شہری نعیم اچکزئی کی شادی افغانستان کے سرحدی گاؤں میں ہوئی ہے۔ شادی ان کے رشتہ داروں میں ہوئی ہے اور یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی ان کے خاندان کے کئی مرد و خواتین کی شادیاں آر پار ہو چکی ہیں۔
لیکن نعیم اچکزئی کو دھچکا اس وقت لگا جب ان کی اہلیہ کو والدین کی عیادت کے لیے افغانستان جانا پڑا اور اس دوران طالبان نے اشرف غنی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور سرحد بند کر دی گئی۔ مہینے بعد جب باب دوستی سے آمدورفت کا آغاز ہوا تو بھی ان کی اہلیہ پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے سفر کرنے کے قابل نہیں تھیں۔ اس لیے انھیں اپنے سسرال آنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑے۔
نعیم اچکزئی کے مطابق ’میں نے باب دوستی چمن پر نہ جانے کتنے ثبوت پیش کیے کہ میری بیوی افغانستان میں اپنے والدین سے ملنے اور ان کی عیادت کرنے گئی تھی تب جا کر خصوصی رعایت دیتے ہوئے آنے کی اجازت دی گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ جتنی جلدی ہو سکے دونوں اطراف کے مقامی شہریوں کے لیے شناختی کارڈ اور افغان شناختی دستاویز یعنی تذکرہ پر تمام کراسنگ پوائنٹس سے آمدورفت کی اجازت دی جائے تاکہ ہماری رشتہ داریاں متاثر نہ ہوں۔‘
انہی مشکلات کی وجہ سے اب لوگوں نے سرحد پار رشتے کرنا بھی کم کر دیے ہیں۔ بلوچستان کے ضلع پشین اور افغانستان کے شہر قندھار کے ضلع معروف کی سرحد پر واقع گاؤں کے رہائشی شمس اللہ بارکزئی نے بتایا کہ ’سرحد پر آمدروفت میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دیکھتے ہوئے اب سرحدی علاقوں کے لوگ اپنی بہنوں بیٹیوں کے رشتے سرحد کی دوسری جانب کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اسی طرح افغان سرحدی علاقوں کے رہائشی بھی اب ہمیں رشتہ نہیں دیتے۔‘
اس حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے حکام کا کہنا ہے کہ ’وزیراعظم عمران خان کے احکامات کی روشنی میں باب دوستی چمن عام افراد کے لیے صبحِ چھ بجے سے شام چھ بجے تک کھولا جاتا ہے۔ اس سارے عمل کو پاک فوج ریگولیٹ کر رہی ہے اور صرف پاسپورٹ پر سفر کرنے والوں کو آمدورفت کی اجازت ہے۔ تذکرہ کا نظام فی الحال آپریشنل نہیں ہے لیکن جلد ہی شروع کر دیا جائے گا جو آئی بی ایم ایس کے تحت چلایا جائے گا۔‘

2600 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد کا تقریباً 1270 کلومیٹر حصہ بلوچستان سے لگتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’اس سے دونوں اطراف کے سرحدی علاقوں کے افراد کو شناختی کارڈ پر ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے، کھیتی باڑی، میل ملاقات اور مزدوری کی اجازت ہوگی۔‘
چمن چیمبر آف کامرس کے رہنما حاجی آدم خان کا کہنا ہے کہ پاکستانی سرحدی علاقوں چمن اور قلعہ عبداللہ کے تقریباً 10 سے 12 ہزار تاجر افغانستان کے سرحدی شہر سپین بولدک میں کاروبار کرتے ہیں جس کے لیے وہ روزانہ صبح سرحد عبور کر کے افغانستان جاتے اور شام کو واپس پاکستان آتے تھے۔ اس کے لیے کسی پاسپورٹ، ویزے یا راہداری کی شرط نہیں تھی، صرف شناختی کارڈ پر چمن یا قلعہ عبداللہ کا پتہ درج ہونا ضروری تھا۔
حاجی آدم خان کے مطابق 12 سے 15 ہزار مزدوروں کا روزگار بھی اسی سرحد سے وابستہ ہے۔ انہیں چھوٹے پیمانے پر تجارتی سامان بغیر کسی ٹیکس کے ہاتھ ریڑھیوں کے ذریعے پاکستان لانے کی اجازت تھی۔ ان مزدوروں کو مقامی اصطلاح میں ’لغڑی‘ کہتے ہیں اور حکومت نے ’لغڑی پیکیج‘ کے تحت انہیں خصوصی کارڈز جاری کیے تھے جن کی بنیاد پر وہ سامان کی ترسیل صرف ہاتھ ریڑھیوں کے ذریعے کر سکتے تھے۔
حاجی آدم خان کا مزید کہنا تھا کہ اب تاجروں اور مزدوروں کو سرحد پار کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے جس کی وجہ سے ان کا کاروبار اور روزگار متاثر ہے۔
چمن سے منتخب رکن بلوچستان اسمبلی اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ سرحد کے دونوں طرف ایک ہی قوم، زبان اور مذہب کے لوگ آباد ہیں جن کے سرحد کے دونوں جانب رشتے اور جائیدادیں ہیں۔

’سرحد پر پیش آنے والی رکاوٹوں کو دیکھتے ہوئے اب سرحدی علاقوں کے لوگ اپنی بہنوں بیٹیوں کے رشتے سرحد کی دوسری جانب کرنے سے کترا رہے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’میری اپنی زمین پاکستانی ریکارڈ میں موجود ہے مگر وہ سرحد کے دوسری جانب واقع ہے۔ تقسیم سے قبل اور اس کے بعد بھی سرحدی علاقوں کی آمدورفت پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔ اب قدغنیں لگانے کے منفی نتائج سامنے آئیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاک افغان چمن سرحد پر آمدورفت کے لیے مکمل طور پر پاسپورٹ کا نظام رائج کرنا ممکن نہیں اس کے لیے حکومت کو بہتر متبادل نظام بنانا ہوگا۔

شیئر: