Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں پولیس کے لاٹھی چارج سے 10 ڈاکٹرز زخمی، 25 گرفتار

صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس نے احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف پر لاٹھی چارج کیا ہے جس کے نتیجے میں 10 ڈاکٹر اور پیرامیڈیکس زخمی ہوگئے ہیں جبکہ 25 ڈاکٹروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
بدھ کو ینگ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف اپنے مطالبات کے حق میں وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا دینے کے لیے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے اعلان کیا تھا کہ حکومت کی جانب سے مطالبات تسلیم نہ کرنے پر وہ بدھ کی صبح ریڈ زون میں داخل ہو کر وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے۔
ینگ ڈاکٹرز اور ان کے ساتھ احتجاج میں شریک پیرا میڈیکل سٹاف ریلی کی صورت میں سول ہسپتال سے باہر نکلے تو انسکمب روڈ پر پولیس نے انہیں روک لیا۔
حفاظتی ہیلمٹ، جیکٹ، شیلڈ اور لاٹھیوں سے لیس پولیس کی انٹی رائیٹ فورس کے اہلکاروں کی بڑی تعداد مظاہرین کو روکنے کے لیے تعینات کی گئی تھی۔
مظاہرین نے پولیس کی جانب سے لگائی گئیں رکاوٹیں ہٹانا شروع کیں تو ہاتھا پائی اور دھکم پیل شروع ہوگئی اور پولیس اہلکاروں نے لاٹھی چارج کر کے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما ڈاکٹر حفیظ مندوخیل کے مطابق ’پولیس اہلکاروں کے تشدد سے 10 سے زائد مظاہرین زخمی ہوئے جنہیں سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر منتقل کر دیا گیا۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’زخمی ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کے سروں، چہروں اور جسم کے دیگر حصوں پر شدید زخم آئے ہیں۔‘
ڈاکٹر حفیظ مندوخیل کا کہنا تھا کہ ’50 ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو گھیسٹ کر زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم پولیس نے صرف 25 گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے۔‘
کوئٹہ پولیس کے ایس ایس پی آپریشنز عبدالحق عمرانی نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ’عدالتی احکامات کے مطابق ریڈ زون میں احتجاج کی اجازت نہیں تاہم کچھ ڈاکٹرز ریڈ زون میں جانے پر بضد اور مشتعل تھے، جس پر پولیس نے انہیں قابو کر کے گرفتار کر لیا۔ پولیس نے پرامن احتجاج سے کسی کو نہیں روکا۔‘
ینگ ڈاکٹروں نے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد بلوچستان بھر میں ایمرجنسی سروسز کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
ڈاکٹر حفیظ مندوخیل کے مطابق اگر مطالبات نہ مانے گئے تو نجی ہسپتالوں میں بھی ایمرجنسی سروسز بند کر دیں گے۔ اس دوران اموات ہوئی تو ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف لیبر روم اور انتہائی نگہداشت شعبوں سے بائیکاٹ نہیں ہوگا۔

پولیس کی انٹی رائیٹ فورس کے اہلکاروں کی بڑی تعداد مظاہرین کو روکنے کے لیے تعینات کی گئی تھی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

خیال رہے کہ بلوچستان میں ینگ ڈاکٹرز اپنے مطالبات کے لیے تقریباً گذشتہ تین مہینوں سے احتجاج پر ہیں اور سرکاری ہسپتالوں کے او پی ڈیز کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے جس سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
نومبر میں بھی پولیس نے گورنر اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے قریب دھرنا دینے والے 19 ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کو پولیس نے گرفتار کر کے مقدمہ درج کیا تھا۔
اس مقدمے میں ڈاکٹر ایک ماہ سے زائد عرصہ تک جیل میں رہے تاہم بعد میں وزیراعلیٰ نے مقدمہ واپس لے لیا۔

ڈاکٹروں کے مطالبات کیا ہیں؟

ڈاکٹروں کا مطالبہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کا فیصلہ واپس لیا جائے ،ایڈہاک بنیادوں پر تعینات ڈاکٹروں کو مستقل کیا جائے۔
ڈاکٹروں کے لیے نئی سرکاری آسامیاں تخلیق کی جائیں اور اس کے ساتھ ڈاکٹروں کو رہائش، الاؤنسز اور دیگر مراعات دی جائیں۔
ان کے علاوہ سرکاری ہسپتالوں میں طبی آلات اور سہولیات فراہم کی جائیں۔
ڈاکٹر حفیظ مندوخیل کے مطابق حکومت نے زبانی حد تک مطالبات مانے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
دوسری جانب وزیر صحت بلوچستان سید احسان شاہ کا کہنا ہے کہ احتجاج پر بیٹھے ڈاکٹروں کے ساتھ سنجیدگی سے مذاکرات جاری تھے مگر ان کی جانب سے ریڈ زون کی جانب احتجاج نامناسب اقدام ہے۔
چاغی میں میڈیا سے گفتگو میں سید احسان شاہ کا کہنا تھا کہ ’ینگ ڈآکٹرز کے باقی تمام مطالبات مان لیے ہیں صرف تنخواہ بڑھانے پر اتفاق نہیں ہوا کیونکہ ڈاکٹروں کی تنخواہیں پہلے ہی اسسٹنٹ کمشنر سے زیادہ ہیں۔‘
’اسسٹنٹ کمشنر کو 50 ہزار اور ڈاکٹر کو 70 ہزار تنخواہ مل رہی ہے۔‘
صوبائی وزیر صحت کے مطابق ڈاکٹروں کی تنخواہ بڑھانے پر حکومتی خزانے پر سالانہ سات ارب روپے کا بوجھ بڑھے گا جو ہمارا صوبہ برداشت نہیں کر سکتا۔ ہم درمیانی راستہ نکالیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز ڈیوٹی نہ دینے کے باوجود تنخواہیں لے رہے ہیں جو مریضوں کے ساتھ زیادتی ہے۔

شیئر: