Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم، سانحہ مری اور اس کے سبق

وفاقی موسمیاتی ادارے کی طرف سے جو وارننگ بھیجی گئی اس پر کوئی قدم اٹھانے کے بجائے رسمی طور پر واٹس ایپ پیغامات میں ڈال دیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سانحہ مری کے بعد تشکیل پانے والی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ آ چکی ہے۔ درجن بھر سرکاری افسر تبدیل، صوبہ بدر یا معطل ہو چکے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی کچھ روایتی سے اعلانات بھی ہوئے جیسے مری کو ضلع بنانا اور دیگر اقدامات وغیرہ۔ سوال البتہ یہ ہے کہ کیا اس رپورٹ میں نااہلی اور مجرمانہ غفلت کی صحیح نشاندہی کی گئی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس کے بعد اس قسم کے واقعات کا تدارک ہو سکے گا؟
اس رپورٹ کو پڑھ کر سب سے پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ حکومت صرف سرکاری افسروں کا ہی نام ہے۔ اس میں انگریزی حروف تہجی والے بہت سے محکموں کا ذکر ہے جیسے پی ڈی ایم اے، پی ایم ڈی اور ہائی ویز وغیرہ۔ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ایس پی سمیٹ کئی عہدوں کا بھی تذکرہ ہوا ہے۔
اگر نہیں ذکر ہوا تو کسی سیاسی شخصیت یا کسی سیاسی عہدے کا ذکر نہیں ہوا، مثلاً یہ پتا نہیں چلا کہ صوبے کا وزیر داخلہ کون ہے؟ وفاقی وزیر داخلہ تو مری میں بیانات کی حد تک کم از کم متحرک نظر آئے مگر صوبے کے وزیر داخلہ کا قلمدان تو وزیراعلیٰ کے پاس ہے۔
اگر ہر چیز کی ذمہ داری سرکاری افسروں پر ہی آنی ہے تو پھر منصوبوں کے افتتاح بھی انہی سے کروانے چاہیے اور پریس ریلیز بھی ان کی طرف سے آنی چاہیے۔ وزرا اور وزیراعلیٰ کی جگہ پھر انہی کو سامنے آ جانا چاہیے۔

صوبے کے وزیر داخلہ کا قلمدان وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے پاس ہے۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)

کمیٹی نے کئی شعبوں اور محکموں میں انتظامی نااہلی کا تعین کیا ہے۔ اس میں سے ایک صوبائی ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بھی ہے جس کے سربراہ کا عہدہ اس واقعے کے وقت خالی تھا۔
وفاقی موسمیاتی ادارے کی طرف سے جو وارننگ بھیجی گئی اس پر کوئی قدم اٹھانے کے بجائے رسمی طور پر واٹس ایپ پیغامات میں ڈال دیا گیا۔ کیا صوبے کے اس اہم ادارے کے عملا غیر فعال ہونے کا کسی کو ذمہ دار کہا جائے گا ؟ پی ڈی ایم اے کے ساتھ ہائی ویز کا محکمہ بھی غیرفعال نظر آیا اور رپورٹ کے مطابق وہ اپنا ایندھن تک فائیو سٹار ہوٹل سے مانگتے پائے گئے۔
کیا صرف ایس ڈی او کی سطح کے افسر اس کے ذمہ دار ہیں؟ کیا یہ تنزلی صرف نچلی سطح پر ہی ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ میں مری سانحے پر جاری سماعت میں بھی وفاقی ادارے این ڈی ایم اے کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کی ذمہ داری کے بارے میں آبزرویشن سامنے آئی ہے ۔
پنجاب میں مری سب سے مشہور تفریحی مقام ہے۔ اس کا انتظام و انصرام صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس سے پیشتر موجودہ صوبائی حکومت کی طرف سے کافی ویڈیوز بنوائی گئیں جن میں بتایا گیا کہ مری کی اہم سرکاری عمارتیں اور ریسٹ ہاوسز اب پہلے سے برعکس براہ راست عوام کے لیے استعمال ہوں گی۔ اس سے ظاہر ہے کہ صوبائی احکام مری کا مسائل سے بخوبی آگاہ تھے مگر اسی مری میں کوئی ایسا کنڑول روم نہیں جہاں سے مختلف سرکاری محکموں میں کوارڈینشن ہو سکے۔
اس کا نتیجہ یہ تھا کہ پولیس اور انتظامیہ کے افسر خود گاڑیوں کو دھکیلتے پائے گئے۔ انفرادی سطح پر یہ عمل قابل تحسین ہے مگر اجتماعی طور پر اس سے زیادہ گورننس کی ناکامی کیا ہو سکتی ہے؟ حکومت کے اپنے سرکاری افسروں کی اس کمیٹی نے غالباً صوبائی سطح پر گورننس کی ناکامی کی صورتحال کے بارے میں تبصرہ نا کرنے میں ہی عافیت سمجھی ہوگی۔

مری میں کوئی ایسا کنڑول روم نہیں جہاں سے مختلف سرکاری محکموں میں کوارڈینشن ہو سکے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سرکاری افسران کی بھی اپنی خو بو ہے۔ ان میں احساس ذمہ داری اور صلاحیت خال خال ہی نظر آتی ہے۔ کمیٹی نے خود ہی یہ تعین کیا کہ اس واقعے میں بھی افسران میں قوت فیصلہ اور موقع کی مناسبت سے کرائسز مینیجمنٹ کا ہنر موجود نہیں تھا۔
اچھی بات ہے کہ ان کو تبدیل کیا گیا مگر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اسی طرح کے افسران اگلے سال بھی موجود نہیں ہوں گے۔ انکوائری کمیٹی نے اس پہلو کو نظر انداز کیا مگر میڈیا نے اعداد و شمار دیے ہیں کہ باقی صوبے کی طرح پنڈی میں بھی افسران کے تبادلے کی میوزیکل چیئر جاری رہتی ہے۔ ان حالات میں کیا پلاننگ اور کیا کارکردگی جب لگنے والے کو پتہ ہی نہ ہو کہ اس کا قیام مہینوں نہیں ہفتوں تک بھی محدود ہو سکتا ہے۔
اگر رپورٹ کو ہی لے لیں تو اس میں واقعے کی پانچ وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
 کنٹرول روم اور مشینری کی دستیابی کو چھوڑ کو باقی تمام ذمہ داری لیڈر شپ، باہمی رابطہ اور کوارڈینشن اور پلاننگ کے فقدان پر ڈالی گئی ہے۔ وجوہات کی سمت تو مناسب ہے مگر ان کے تدارک کا کوئی منصوبہ یا ارادہ نظر نہیں آتا۔
 دیر پا اور دور رس اقدامات کے بغیر یہ کارروائیاں نئی بوتل میں پرانے مشروب کی طرح ہی رہیں گی۔

شیئر: