Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عثمان مرزا تشدد کیس: ’ویڈیو کسی بھی ملزم کے موبائل سے وائرل نہیں ہوئی‘

محب بنگش کا کہنا تھا ’مجھے پولیس افسران کہہ رہے تھے کہ تم مانو کہ تم نے جرم کیا ہے۔‘ فائل فوٹو: ان سپلیش
عثمان مرزا کیس کے ابتدائی طور پر تفتیش کرنے والے سب انسپکٹر طارق زمان نے دوران جرح عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کسی بھی ملزم کے موبائل سے وائرل ہوئی نہ دوران تفتیش یہ معلوم ہوسکا کہ ویڈیو کس نے وائرل کی۔  
اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں لڑکا اور لڑکی پر تشدد کرنے اور ہراساں کرنے کے کیس کی سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی نے کی۔ منگل کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں تفتیشی افسران پر ملزمان کے وکلا کی جانب سے جرح کی گئی۔  
کیس کی ابتدائی تفتیش کرنے والے سب انسپکٹر طارق زمان پر شریک ملزم ریحان کے وکیل عاصم مختار نے جرح کے دوران استفسار کیا کہ کیا تفتیش کے دوران یہ معلوم ہوسکا کہ ویڈیو کس ملزم کے موبائل فون سے وائرل کی گئی۔ 
سب انسپکٹر طارق زمان نے عدالت میں بیان دیا کہ ویڈیو کسی بھی ملزم سے موبائل سے وائرل نہیں ہوئی۔ سب انسپکٹر نے ملزم کے وکیل کے سوال کے جواب میں بتایا کہ ’ملزم ریحان کی فوٹو گرایمٹری نہیں کی گئی نہ ہی آواز کی میچنگ کا ٹیسٹ کیا گیا۔‘ 
ملزم ریحان کے وکیل نے مرکزی تفتیشی افسر انسپکٹر شفقت پر بھی جرح کی جس میں بتایا گیا کہ دوران تفتیش یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ لڑکا اور لڑکی پر تشدد اور ہراساں کرنے کی ویڈیو کس نے وائرل کی ہے جبکہ وائرل ویڈیو میں شریک ملزم ریحان کہیں پر بھی نظر نہیں آیا۔ ویڈیو ملزم ریحان نے ہی بنائی ہے لیکن کس موبائل سے بنائی ہے یہ معلوم نہیں ہوسکا۔‘  
تفتیشی افسر نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا کہ ’یہ بات درست نہیں کہ لڑکا اور لڑکی سے سادہ کاغذ پر دستخط کروائے تھے۔‘  
سماعت میں وقفے سے قبل شریک ملزم نے تفتیشی افسر پر ہراساں کرنے کے الزمات عائد کیے تھے۔ کیس کی سماعت کے دوران شریک ملزم محب بنگش کی کمرہ عدالت میں جج عطا ربانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’گذشتہ سماعت کے بعد جب ملزمان واپس جارہے تھے تو مجھے کہا گیا کہ مجھ سے پولیس افسر ملنے آیا ہے۔‘ 
ملزم نے عدالت کو بتایا کہ ’بخشی خانے کے اندر کمرے میں مجھ سے پولیس آفیسر ملنے آیا۔ مجھے کہا کہ بات کرنی ہے اور وہ آواز ریکارڈ کر رہے تھے، پیچھے ایک پولیس آفیسر ویڈیو بھی بنارہا تھا۔‘ 
ملزم نے عدالت کو بتایا کہ ’مجھے پولیس افسران کہہ رہے تھے کہ تم مانو کہ تم نے جرم کیا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے جج عطا ربانی کے سامنے پیش کریں۔ مجھے پولیس افسران نے کہا کہ ’ہمارے پاس عطا ربانی کے آرڈر ہیں۔‘ 
اس پر جج عطا ربانی نے کہا کہ ’میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں۔‘  
تفتیشی افسر نے موقف اپنایا کہ ’میں ملزم محب بنگش کی وائس ریکارڈنگ کا سیمپل لینے بخشی خانہ گیا تھا۔ اس حوالے سے میں نے مجسٹریٹ سے تحریری اجازت لی تھی۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’ملزم محب بنگش کی آواز کا فرانزک کرانا تھا اس لیے بخشی خانہ اس کی ریکارڈنگ کے لیے گیا تھا۔‘ 

شیئر: