Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ: مسلمان لڑکے کو انسداد انتہاپسندی مرکز بھیجنے کا فیصلہ

11 سالہ مسلمان لڑکے نے دوست کو کہا تھا کہ اسے امید کہ ان کا سکول جل جائے گا (فوٹو: شٹر سٹاک)
برطانیہ میں ایک مسلمان خاندان کے 11 سالہ لڑکے کو حکومت کے انسداد انتہا پسندی پروگرام میں بھجوایا جائے گا تاکہ انتہا پسند خیالات سے بچایا جا سکے۔
لڑکے نے اپنے ایک دوست سے کہا تھا کہ اسے امید ہے کہ ان کا سکول جل جائے گا۔ عرب نیوز کے مطابق لڑکے کی والدہ نے گارڈین اخبار کو بتایا کہ ’براؤن یا ایشیائی ہونا آپ کو دہشت گرد نہیں بنا دیتا۔‘
انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کے بیٹے کی بات کو قبول نہیں کیا جا سکتا تاہم مزید کہا کہ یہ ’الگ تھلک‘ ہونے اور دباؤ کا نتیجہ تھا، بچے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پریشان تھا۔
لڑکے کے سکول کی جانب سے اس واقعے کی تحقیقات میں شدت پسند گروپوں سے کسی قسم کے روابط یا بنیاد پرست جملوں کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ملا ہے
لڑکے کی ماں کا کہنا ہے کہ ’محفوظ رکھنے کی غرض سے کیے جانے والے اقدامات کا تقاضا ہے کہ ہر لحاظ سے مناسب ہوں۔‘
متعلقہ ادارے کے افسر کی جانب سے کیس کا جائزہ لینے کے بعد مزید کوئی ایکشن نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا، تاہم طے شدہ پروٹوکول کے مطابق لڑکے کے حوالے سے سامنے آنے والی معلومات کو انسداد دہشت گردی کے ڈیٹا بیس میں لایا جانا ضروری تھا جب تک ان کی والدہ مداخلت نہ کرتیں۔
لڑکے کی ماں نے شمالی انگلینڈ میں واقع سکول میں شکایت بھی درج کروائی تھی کہ ان کو واقعے کے بارے میں اطلاع نہیں دی گئی۔
ان کے مطابق ’اہلکار کی جانب سے بتایا کہ معاملے کو آگے نہیں بڑھایا جائے گا کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ لگ رہا جس میں 11 سالہ لڑکا سکول میں کسی کوشش کی بات کر رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ بیٹا ہوم ورک کے دباؤ کی وجہ سے ناخوش تھا۔
لڑکے کی والدہ نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کا نام دہشت گردوں کے ڈٰیٹا بیس سے نکلوانے کے لیے لڑیں گی۔

شیئر: