Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوجداری قوانین میں ’پلی بارگین‘ کی شق شامل کرنے کی تجویز 

کسی بھی ملزم کی ایک جیسے نوعیت کے مقدمات میں پلی بارگین کی درخواست ایک سے زائد بار آنے کی صورت میں عدالت معاملے کو ختم کر سکتی ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان میں کرمنل لا اینڈ جسٹس ریفارمز کے تحت مختلف قوانین میں ترامیم کا  ڈرافٹ تیار کر لیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی جانب سے تیار کردہ ڈرافٹ وزیراعظم عمران خان نے منظور کر لیا ہے جس کی باضابطہ منظوری وفاقی کابینہ سے لی جائے گی۔ 
اس ڈرافٹ میں چھ سو سے زائد قوانین میں ترمیم اور نئے قوانین شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب ڈرافٹ کی کاپی کے مطابق پاکستان میں پہلی مرتبہ فوجداری مقدمات میں بھی ’پلی بارگین‘ کا تصور پیش کرنے کے لیے تجویز کی گئی ہے۔ 
وفاقی وزیر قانون کی جانب سے تجویز کردہ ترامیم میں ’ضابطہ فوجداری میں نئے سیکشن 266 کا اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے مطابق ملزم جرم کو تسلیم کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست دائر کر سکتا ہے۔
اس سیکشن کا اطلاق سزائے موت یا سات سال سے زائد سزا کے جرائم پر نہیں ہوگا جبکہ خواتین اور 18 سال سے کم عمر کے خلاف کیے گئے جرائم پر بھی اطلاق نہیں ہوگا، جن میں ریپ، قتل، دہشت گردی، غداری اور دیگر سنگین جرائم بھی شامل ہیں۔ 
سیکشن 266 کے مطابق پلی بارگین میں ملزم ٹرائل کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست دائر کرے گا جس کے بعد عدالت پراسیکیوٹر اور شکایت کنندہ کو نوٹس جاری کرے گی۔
عدالت کے اس بات پر مطمئن ہونے پر کہ ملزم کی طرف سے یہ درخواست رضاکارانہ بنیاد پر دی گئی ہے، عدالت کیس کے خاتمے کے لیے کام کرنے کی اجازت دے گی۔
کسی بھی ملزم کی ایک جیسے نوعیت کے مقدمات میں پلی بارگین کی درخواست ایک سے زائد بار آنے کی صورت میں عدالت معاملے کو ختم کر سکتی ہے۔ 

سیکشن 266 کا اطلاق سزائے موت یا سات سال سے زائد سزا کے جرائم پر نہیں ہوگا۔ (فائل فوٹو: ایمنسٹی انٹرنیشنل)

پلی بارگین کے لیے تمام فریقین کے درمیان تصفیہ ہونے کی صورت میں عدالت اس کیس کو ختم یا سزا میں کمی کر سکتی ہے اور تصفیہ نہ ہونے کی صورت میں کیس کو وہیں سے چلایا جائے گا جہاں سے پلی بارگین کی درخواست آئی تھی۔
تجویز کردہ ترمیم میں واضح کیا گیا ہے کہ پلی بارگین میں عدالت کے مطمئن ہونے پر ہی کیس ختم کیا جا سکے گا۔
’پلی بارگین راضی نامے کا دوسرا نام ہے
اس سے قبل انسداد بدعنوانی قانون میں پلی بارگین کا تصور موجود ہے، جس کے تحت ملزم رضاکارانہ طور پر رقم کا کچھ حصہ لوٹانے کے بعد پلی بارگین یعنی عدالت سے سزا کم یا ختم کروا سکتا ہے۔
نیب کے اس قانون پر بھی مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔ 
نیب کے سابق ایڈیشنل پراسیکیوٹر عمران شفیق کے مطابق پلین بارگین کا قانون فوجداری مقدمات میں متعارف کروانے سے نظام انصاف متاثر ہو سکتا ہے۔
’مالی معاملات کی حد تک پلی بارگین کا قانون متاثرہ فریق کو ریلیف فراہم کر سکتا ہے لیکن دیگر جرائم میں پلی بارگین کے نظام کو لانا درست نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’تجویز کردہ سیکشن میں سات سال سے کم سزا ہونے والے تمام جرائم پر پلی بارگین کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ پلی بارگین کو مالی معاملات کے کیسز کی حد تک محدود نہ کرنا درست نہیں ہے۔
عمران شفیق کے مطابق ’پلی بار گین کی مالی نوعیت کے کیسز میں بالکل اجازت ہونی چاہیے، کیونکہ جس کے ساتھ مالی طور پر دھوکہ یا فراڈ ہوا ہے تو اس کی دلچسپی یہی ہوتی ہے کہ اس کی رقم اسے واپس وصول ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ ’لین دین یا مالی بے ضابطگیوں کے جتنے بھی مقدمات ہیں ان میں بلآخر چار پانچ سال تک جیل میں رہ کر آخر میں صلح ہی کرتے ہی۔ اگر مالی نوعیت کے مقدمات میں پلی بارگین کی شق ڈالی جائے تو اس سے عدالتوں پر بوجھ کم ہوگا اور عدالت کی زیر نگرانی لوگوں کو ڈوبی ہوئی رقم ملنا شروع ہوں گی اور جھوٹے مقدمات کا اندراج بھی ختم ہوگا۔

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی جانب سے تیار کردہ ڈرافٹ وزیراعظم عمران خان نے منظور کر لیا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

’کیونکہ دھوکہ دہی کی دفعات قابل ضمانت ہیں تو ایسے کیسز میں متاثرہ فریق جھوٹ کا سہارا لے کر ایسی دفعات بھی شامل کرتے ہیں جو ناقابل ضمانت ہوں۔ تاہم اگر مالی معاملات سے ہٹ کر کوئی اگر کیس میں دفعات ڈال رہے ہیں وہ درست نہیں ہوگا۔
سابق وزیر قانون اور سینئیر قانون دان خالد رانجھا کے خیال میں ’پلی بارگین‘ صلح یا راضی نامے کا دوسرا نام ہے۔ اور فوجداری مقدمات میں اگر یہ شق ڈالی جا رہی ہے تو عدالت کی زیرنگرانی فریقین کے درمیان تصفیہ کرانا ہی مقصد ہے۔ 
خالد رانجھا کے مطابق ’اگر فریقین صلح کر لیں تو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے، اگر کسی مقدمے میں ریاست فریق نہیں ہے اور چھوٹے موٹے کیسز ہیں جس میں فریقین کے درمیان صلح ہو جائے اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’پلی بارگین سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کے خلاف چھ چارجز ہیں ملزم دو قبول کر لے تو باقی چارجز کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے کلچر میں عدالت سے باہر راضی نامہ ہونا معمول کی بات ہے اور اگر اسے قانونی شکل دی جا رہی ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں، ہمارے ہاں پلی بارگین راضی نامے یا صلح کا دوسرا نام ہے۔

شیئر: