Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم کیس، ملزمان سے سوال نامے میں کیا پوچھا جاتا ہے؟

جج کی جانب سے تیار کردہ سوال نامے میں ملزمان کے خلاف تمام شواہد کا ذکر کیا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
اسلام آباد میں سابق سفیر کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے کیس کا ٹرائل اختتامی مراحل میں ہے۔ وکلا کی جرح مکمل ہونے کے بعد اب اگلے مرحلے میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت ملزمان کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا، جس کے لیے مقدمے میں نامزد تمام ملزمان کو سوالنامہ فراہم کیا جائے گا۔ 
مدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور کے مطابق ‘عدالت نے حکم دیا ہے کہ آئندہ سماعت سے قبل تمام ملزمان کو سوالنامہ فراہم کر دیا جائے جس کے جوابات آئندہ سماعت پر لیے جائے گے۔
ملزمان کو دیے جانے والے سوالنامے میں کیا پوچھا جاتا ہے؟ 
ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت دوران ٹرائل ملزمان کے بیانات قلمبند کیے جاتے ہیں۔ جس کے لیے متعلقہ جج مقدمے میں نامزد تمام ملزمان کو سوالنامہ فراہم کرتے ہیں۔
جج کی جانب سے تیار کردہ سوالنامے میں ملزمان کے خلاف تمام شواہد کا ذکر کیا جاتا ہے اور ملزم سے اس شواہد یا گواہ کے بارے میں جواب مانگا جاتا ہے۔
سوالنامے میں استغاثہ کی جانب سے فراہم کیے گئے تمام گواہان، ثبوت اور رپورٹس کی روشنی میں سوالات کیے جاتے ہیں۔
ملزمان سے سوال پوچھا جاتا ہے کہ گواہ نمبر ایک نے آپ کے بارے میں کہا کہ آپ فلاں دن فلاں جگہ پر یہ کام کر رہے تھے، آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ 
اسی طرح جائے وقوعہ سے برآمد ہونے والے اشیا یا آلہ قتل برآمد ہونے سے متعلق سوال پوچھا جاتا ہے۔ آپ سے پستول برآمد ہوئی تھی یا کپڑے برآمد ہوئے تھے یا فلاں چیز برآمد ہوئی تھی اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔
اس سوال نامے میں پراسیکیوشن کی جانب سے فراہم کیے گئے دستاویزی ثبوت، گواہ یا مقدمے میں ملزمان کے خلاف جانے والی تمام چیزیں جو عدالت میں پیش کی گئیں ہوں، ان سے متعلق ملزم سے سوال پوچھا جاتا ہے اور تفصیل مانگی جاتی ہے۔ 
سوال نامے کے آخر میں ملزم سے پوچھا جاتا ہے کہ ان تمام شواہد کی روشنی میں آپ اپنے دفاع میں کیا کہنا چاہتے ہیں یا یہ کیس آپ کے خلاف کیوں بنا؟

نور مقدم قتل کیس کا ٹرائل اختتامی مراحل میں ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

قانونی ماہرین 342 کے بیان کو انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ اس بیان میں ملزمان کو اپنے حق میں جواب دینے، تمام شواہد کے حوالے سے ملزم کو اپنے دفاع میں شہادت پیش کرنے یا کیس بننے کی وجوہات بیان کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اس سوال نامے میں جن شواہد یا ثبوتوں کا ذکر نہیں ہوتا وہ شواہد یا ثبوت ملزم کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتے اور جن ثبوتوں کا ذکر سوالنامے میں موجود ہو، کیس کا فیصلہ بھی ان ہی گواہوں یا ثبوتوں پر کیا جاتا ہے۔
عمومی طور پر قتل کے ان مقدمات میں جہاں ملزمان سیلف ڈیفنس یا ذہنی طور پر ان فٹ ہونے کے دعویدار ہوں تو انہیں اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔
ملزمان کا 342 کا بیان قلمبند ہونے کے بعد اگر ملزم اپنے حق میں شہادتیں لاتا ہے تو ملزم کی فراہم کی گئی شہادتوں پر جرح ہوتی ہے اور اگر ملزم اپنے حق میں گواہی یا شہادت پیش نہیں کرتا تو پھر پراسیکیوشن اور دفاع کے وکیل حتمی دلائل دیتے ہیں۔

شیئر: