Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

متشدد انتہا پسندی روکنے کے لیے قانون سازی کا فیصلہ

متشدد انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خاتمے کے لیے وزارت داخلہ نے تجاویز تیار کی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک میں متشدد انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تدارک کے لیے جلد از جلد قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کے لیے ملک کی نظرثانی شدہ انسداد انتہا پسندی پالیسی کے تحت خصوصی بل لایا جائے گا۔ 
اردو نیوز کو دستیاب سرکاری دستاویز کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی خصوصی ہدایت پر وزارت داخلہ نے ملک میں متشدد انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خاتمے کے لیے تجاویز تیار کیں۔
ان میں سے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سانحہ سیالکوٹ اور اس طرح کے پرتشدد واقعات سے نمٹنے کے لیے نیا قانون متعارف کرایا جائے۔  
وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق ماضی میں ایسے واقعات کو امن عامہ کے مروجہ قوانین کے تحت دیکھا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ انسداد دہشت ایکٹ کی دفعات شامل کر دی جاتی ہیں، لیکن عدالتوں میں ایسے ملزمان کو ریلیف مل جاتا ہے کیونکہ یہ قوانین ایسے واقعات سے متعلق نہیں بنائے گئے تھے۔  
اس لیے وزارت داخلہ نے ’انسداد متشدد انتہا پسند ایکٹ 2022‘ لانے کی تجویز دی ہے۔ وفاقی کابینہ نے وزارت داخلہ کی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ صوبائی سطح پر بھی متعارف ہونا چاہیے اور اس کے لیے اس بل کا مسودہ تیار کرکے صوبوں کے ساتھ بھی شیئر کیا جائے۔  
حکام کے مطابق اس بل کے تحت جہاں کسی بھی پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا نیا طریقہ کار وضع کیا جائے گا، وہیں اس پر عمل درآمد کے لیے نیا سیٹ اپ بھی لایا جائے گا۔  

تحریک لبیک کے پرتشدد مظاہروں اور سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کی ہلاکت کے بعد قانون سازی کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

یہ بل انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی طرز پر ہوگا جہاں بہت سے قوانین کو جمع کرکے ان میں بہتری لائی جائے گی۔  
حکام ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ ایسے ملزمان کے لیے کوئی نیا عدالتی ڈھانچہ لایا جائے گا یا ان کے مقدمات بھی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ہی سنے جائیں گے۔  
حکام کے مطابق یہ بل لانے کی ضرورت گذشتہ سال تحریک لبیک کے پرتشدد مظاہروں، ان میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور حال ہی میں سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کی ہجوم کے ہاتھوں موت کے بعد زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔  
اس مقصد کے لیے سب سے پہلے نیکٹا کی جانب سے تیار کی انسداد انتہا پسندی پالیسی میں ترامیم کرتے ہوئے اس کا دائرہ کار وسیع کیا گیا۔ 

پالیسی کے تحت اداروں اور تعلیمی نظام میں بھی اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی (فوٹو: اے ایف پی)

اس پالیسی کا مقصد پہلے سے تیار کی گئی پالیسی جس میں نہ صرف معاشرے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر سے انتہاپسندی کے خاتمے کے حوالے سے اقدامات متعارف کرائے گئے تھے۔ اس میں انتہا پسندوں کے معاونین کے لیے سخت سزائیں بھی تجویز کی گئی تھیں۔ اب اس میں اضافہ کرتے ہوئے لوگوں کو دل جیتنے کے اقدامات متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔  
پالیسی کے تحت اداروں اور تعلیمی نظام میں بھی اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی تاکہ ملک میں انتہا پسند ذہنیت کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔  
اس حوالے سے ماہرین کاکہنا ہے کہ ’انسداد دہشت گردی ایکٹ کا دائرہ کار بہت وسیع تھا اس لیے نیا قانون لاتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں یہ اس کے متوازی قانون نہ بنا دیا جائے جس سے وہ بھی کمزور ہوجائے۔‘  

سیالکوٹ میں ہجوم نے سری لنکن شہری کو قتل کر دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز سے گفتگو میں ایڈووکیٹ صباحت رضوی نے کہا کہ ’پاکستان میں متوازی قانون سازی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے عدالتوں میں ملزمان جب کسی ایک قانون کے تحت پھنستے ہیں تو ان کے وکلا متوازی قانون کے ذریعے ان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور کئی مرتبہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔‘  
ان کے مطابق ’یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جب انسداد دہشت گردی ایکٹ دہشت گردی اور انتہا پسندی میں ملوث جماعتوں پر پابندی اور انھیں کالعدم قرار دینے کے لیے کافی ہے تو نئے قانون میں ایسی شقیں شامل نہ کر دی جائیں جس سے متشدد گروہوں کو فائدہ ہو۔‘  
داخلی سکیورٹی کے امور پر تحقیق کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر محمد مکی کا کہنا ہے کہ ’انتہا پسندی ایک بڑا مسئلہ ہے اور ہر دور میں اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ حالیہ واقعات اچانک رونما نہیں ہوئے بلکہ ان کے پیچھے ایک کڑی ہے۔ اسی طرح انتہا پاسندی کے خلاف پالیسی بھی پہلی بار نہیں بن رہی بلکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت یہ پالیسی تشکیل پا چکی تھی اور اس پر عمل در آمد بھی ہو رہا تھا۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’اب اگر ایک چیلنج سامنے آیا ہے تو حکومت کو قانون سازی کا حق حاصل ہے تاہم ایسی قانون سازی ہونی چاہیے جو مستقبل کے لیے بھی کارآمد رہے نا کہ صرف وقت طور پر ایک گروہ کا تدارک مقصود ہو۔‘  
ان کے مطابق حکومت کو اپنی پالیسی اور قانون سازی میں ’سافٹ اپروچ‘ کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔  

شیئر: