Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا یوسف رضا گیلانی کا استعفیٰ صرف علامتی ہے یا حتمی؟

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی نے سوموار کو جذباتی انداز میں سینیٹ میں اپنوں کی بےاعتنائی کا ذکر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ انہوں نے بطور اپویشن لیڈر اپنا استعفیٰ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو جمع کرا دیا ہے۔
اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ’میں اپنے مخالفین کے سخت الفاظ سے نہیں بلکہ اپنے ہمدردوں کی خاموشی سے حیران ہوں۔‘
یاد رہے کہ یاد رہے کہ ایوان بالا میں اپوزیشن کی اکثریت ہونے کے باوجود جمعے کو سینیٹ میں سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا حکومتی بل پاس ہونے پر یوسف رضا گیلانی کو مسلم لیگ ن اور حتی کہ پیپلز پارٹی کے رضا ربانی اور مصطفیٰ نواز کھوکھر جیسے رہنماؤں کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا کیونکہ وہ اجلاس میں شریک نہیں تھے اور حکومتی بل ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور ہو گیا تھا۔
ایسے میں یوسف رضا گیلانی کی تقریر کے بعد ن لیگ کی سینیٹر سعدیہ عباسی نے ایوان میں کھل کر سابق وزیراعظم کی حمایت کر کے سب کو حیران کر دیا۔
سعدیہ عباسی جو کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہمشیرہ بھی ہیں، نے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر جو بات ہو رہی ہے اس کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بل جس دن پاس ہوا اس دن ہر جماعت کے ہی کوئی نہ کوئی ارکان غیر حاضر تھے۔ یوسف رضا گیلانی بہت سینیئر سیاستدان ہیں۔ وہ ہر بڑے عہدے پر فائز رہے ہیں۔
’ہم ان کی پارٹی سے درخواست کریں گے کہ ان کا اپوزیشن لیڈر کا استعفیٰ قبول نہ کیا جائے۔
انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’یوسف رضا گیلانی کی دل آزاری ہوئی ہے تو ہماری قیادت ان سے معذرت خواہ ہے۔

مبصرین کے خیال میں جب تک چیئرمین سینیٹ کو بطور اپوزیشن لیڈر استعفیٰ نہیں بھیجتے یوسف رضا گیلانی اپوزیشن لیڈر ہی رہیں گے۔ (فوٹو: سینیٹ)

استعفیٰ صرف علامتی ہے یا حتمی؟

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے بعد ایوان کے باہر صحافی شدت سے منتظر تھے کہ یوسف رضا گیلانی باہر آئیں تو ان سے پوچھیں کہ کن اپنوں سے انہیں گلہ ہے اور کیا ان کا استعفیٰ صرف علامتی ہے یا حتمی ہے۔
تاہم کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد یوسف رضا گیلانی باہر آئے تو سعدیہ عباسی بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ صحافیوں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایک کہاوت بیان کی تھی کہ’ میں غیروں کی برائی سے زیادہ اپنے ہمدروں کی خاموشی سے حیران ہوں بلکہ دل شکستہ ہوں۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ وہ کون ہیں جنہوں نے ان کا دل دکھایا، کیا وہ ان کی اپنی جماعت سے ہیں یا باہر سے؟ تو یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ ’یہ پتا لگانا تو آپ کا کام ہے میرا ہے ہی نہیں۔‘
ایک اور سوال پر کہ کیا اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے استعفیٰ کا فیصلہ حتمی ہے یا واپس لیں گے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں پارٹی کے فیصلے کا پابند ہوں اس لیے میں نے اپنا استعفیٰ پارٹی کو بھیج دیا ہے۔‘
مبصرین کا خیال ہے کہ پارٹی قیادت کو استعفیٰ دینے کی کوئی قانونی حثییت نہیں ہے اور جب تک وہ چیئرمین سینیٹ کو بطور اپوزیشن لیڈر استعفیٰ نہیں بھیجتے وہ عملی طور پر اپوزیشن لیڈر کے طور پر ہی کام کرتے رہیں گے۔
یوسف رضا گیلانی سے جب پوچھا گیا کہ حکومتی وزرا کی جانب سے ان کا مسلسل شکریہ ادا کرنے پر ان کا کیا کہنا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ’حکومت کے سینیٹرز دھاندلی کر رہے ہیں ان کو چیئرمین سینیٹ کو ووٹ کا کریڈٹ دینا چاہیے۔‘

یوسف رضا گیلانی کو رضا ربانی اور مصطفیٰ نواز کھوکھر جیسے رہنماؤں کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

سعدیہ عباسی نے حمایت کیوں کی؟

اس موقع پر اردو نیوز کے استفسار پر سینیٹر سعدیہ عباسی کا کہنا تھا کہ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کا موقف سچ سمجھا اس لیے ان کی حمایت کی۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا ’ان کی جماعت کی یہی پالیسی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں پارٹی پالیسی کا علم نہیں گیلانی صاحب کی بات کا یقین ہے۔‘
سینیٹر سعدیہ عباسی کا کہنا تھا کہ ’باقی جماعتوں کے لوگ بھی اس دن غیر حاضر تھے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اب بھی سینیٹ میں تحریک التوا پیش کر کے سٹیٹ بینک کے بل کی مخالفت کرے گی۔‘

’اپوزیشن کے 50 سنیٹرز بھی ہوتے تو اسے ہارنا ہی تھا‘

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سینیٹر سلیم مانڈوی والا سے پوچھا گیا کہ گیلانی صاحب کے استعفے کے کیا محرکات تھے تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس حوالے سے نہیں معلوم گیلانی صاحب خود ہی اٹھے اور خود ہی اعلان کر دیا۔
اپوزیشن کے ایک سینیٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ’سینیٹ سے سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا بل پاس ہونے کے موقع پر کون کون غائب تھا سچ تو یہ ہے کہ اس دن اپوزیشن کے 50 ارکان بھی حاضر ہوتے تو اپوزیشن نے ہی ہارنا تھا کیونکہ زمینی حقائق جب تک نہیں بدلیں گے اپوزیشن سینیٹ میں ہارتی رہے گی۔‘

شیئر: