Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی شق 74 اور 75 کو کالعدم قرار دے دیا

سندھ کی اپوزیشن جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ نے سندھ کے بلدیاتی اختیارات کیس میں ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست نمٹا دی۔
منگل کو عدالت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی شق 74 اور 75 کالعدم قرار دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سندھ حکومت تمام قوانین کی آرٹیکل 140 اے سے ہم آہنگی کو یقینی بنائے۔
سندھ کی اپوزیشن جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے 26 اکتوبر 2020 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ماسٹر پلان بنانا اور اس پر عمل درآمد بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات ہیں۔ بلدیاتی حکومت کے تحت آنے والا کوئی نیا منصوبہ صوبائی حکومت شروع نہیں کر سکتی۔ سندھ حکومت مقامی حکومتوں کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن رکھنے کی پابند ہے۔‘
عدالت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایکٹ، کے ڈی اے قوانین، ملیر، حیدرآباد، لیاری، سیہون اور لاڑکانہ ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کے قوانین بھی آئین کے مطابق تبدیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ ان شقوں میں تبدیلی کی جائے اور جہاں صوبائی اور مقامی حکومتوں کے اختیارات میں تضاد ہے، صوبائی فنانس کمیشن پر عملدرآمد کیا جائے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ’آج کے فیصلے میں 2013 کے عوام دشمن آئین سے متصادم لوگوں کو غلام بنانے کے نسخے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔ میں پورے پاکستان کو اس تاریخی کامیابی پر مبارکباد دوں گا۔ جو جدوجہد ہمیں سڑکوں پر آکر کرنی پڑی۔ ان کو سلام کرنے کا دن ہے۔ اٹھارہویں ترمیم ڈیولوشن آف پاور کے لیے تھی۔ ایم کیو ایم کی تمام جدوجہد ایک آدمی کا بااختیار بنانے کے لیے ہے۔‘

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پورے پاکستان کو اس تاریخی کامیابی پر مبارکباد دوں گا۔ (فوٹو: فیس بک ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی)

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں.
’ہمارا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے کہ مقامی حکومتوں کو با اختیار ہونا چاہیے۔ آئین کی شق 140 اے پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ آئین میں بلدیاتی نظام کا باب بھی ہونا چاہیے۔ ہم نے 29 روز کا دھرنا انہیں مطالبات کے لیے دیا تھا۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سندھ حکومت کے کالے قانون پر سٹرائیک ڈاؤن کیا ہے۔ ’آج کالی سوچ پر سٹرائیک ڈاؤن ہوا ہے۔ بلاول زرداری کہتے تھے کہ کالا قانون کہنے والوں کا منہ کالا ہے۔ آج بلاول کا اپنا منہ کالا ہوچکا ہے۔ پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں بلدیاتی بل کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ آج کا فیصلہ عوام کی امنگوں کے مطابق ہوا ہے۔ ہم کراچی کے ساتھ لاڑکانہ سہون و دیگر شہروں کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے مرتضیٰ وہاب کو ایڈمنسٹریٹر کراچی کے عہدے سے برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔ آنے والے بلدیاتی الیکشن کو سیاسی ایڈمنسٹریٹر متنازع بنا رہے ہیں۔ سندھ حکومت اپنے غیر جمہوری فیصلے پر نظرِ ثانی کرے۔ بلدیاتی قانون دو نمبر قانون ہے۔ بل کو بحیثیت اپوزیشن مسترد کر چکے ہیں۔ نیا قانون بنایا جائے جس میں اپوزیشن سے مشاورت کی جائے۔ الیکشن کمیشن کو بھی جگانا چاہتے ہیں۔‘

امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ ان کا ’ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے کہ مقامی حکومتوں کو با اختیار ہونا چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

چیئرمین پاک سرزمین پارٹی و سابق ناظم کراچی سید مصطفی کمال نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد بات کر سکتے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما اور سابق میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ آج متحدہ قومی موومنٹ اور حق کی فتح ہوئی ہے۔
’عوام دوست فیصلے پر سپریم کورٹ کے شکر گزار ہیں۔ اپنے چار سالہ دور میں اختیارات کے لیے آواز اٹھاتا رہا ہوں۔ کالے قانون کو کراچی کے بعد سپریم کورٹ نے بھی مسترد کر دیا ہے۔‘

شیئر: