Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سابق چیف جسٹس کی مبینہ آڈیو، تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ 

اٹارنی جنرل نے سابق چیف جسٹس کی آڈیو کی فرانزک تحقیقات کرانے کی مخالفت کی۔ فائل فوٹو: روئٹرز
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک کی فرانزک تحقیقات کرانے کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ 
جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے درخواست گزار ایڈووکیٹ صلاح الدین احمد اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے دلائل کے بعد سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ 
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’یہ درخواست ایک زیر التوا مقدمات سے متعلق ہے، اگر اس عدالت سے متعلق کچھ ہو تو میں خود کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اوریجنل آڈیو کس کے پاس ہے؟ جب تک اوریجنل آڈیو نہ ہو دنیا کی کوئی لیبارٹری حتمی رائے نہیں دے سکتی۔ 
درخواست گزار ایڈووکیٹ صلاح الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’آڈیو فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ کے پاس ہیں، صحافی احمد نورانی اس کی کاپی مجھے بھی نہیں دیں گے اگر یہ عدالت انہیں سمن کرے تو تب ہی آڈیو مل سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس آڈیو سے متعلق میری درخواست کسی ایک کیس سے متعلق نہیں، میرا کیس الگ ہے، اگر شریف خاندان دوسرے گراؤنڈز پر بھی بری ہو جائے تب بھی میرا کیس برقرار رہے گا۔ عوام کے ذہن میں آڈیو سے متعلق سوالات برقرار رہیں گے۔‘
ایڈووکیٹ صلاح الدین نے استدعا کی کہ ’آڈیو کی فرانزک کرائیں شاید رپورٹ یہ آجائے کہ آڈیو جعلی ہے یا مختلف کلپس جوڑ کر بنائی گئی ہے۔ اگر ایسی رپورٹ آئی تو سابق چیف جسٹس اور یہ عدالت دونوں بری ہو جائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں اصل آڈیو تک پہنچنے کا پراسیس تو شروع ہو۔‘
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے سابق چیف جسٹس کی آڈیو کا فرانزک کرانے کی مخالفت میں دلائل دیے اور کہا کہ ’ایک کیس کے لیے ہم جوڈیشیری کو تباہ کرنے میں کس حد تک جائیں گے؟ کیس عدالت میں زیر التوا ہے۔ اگر انہیں اعتماد نہیں تو خود آ کر بات کریں، ایسے ادھر ادھر سے درخواستیں نہ دلوائیں۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ خود کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں۔ فائل فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’معزز وکیل نے ابھی کہا کہ ہمیں اس عدالت پر اعتماد ہے اور پھر کہا کہ فرانزک رپورٹ سے یہ عدالت بری ہو جائے گی۔ یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہمیں ہاتھ لگایا تو گھر تک چھوڑ کر آئیں گے۔‘
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’اسلام اباد ہائی کورٹ پر حملہ کیا جاتا ہے کوئی انکوائری کا نہیں کہتا، وزیراعظم کو پھانسی لگانے پر بھی نہیں کیا جاتا، صرف ایک کیس پر عدلیہ کو کمپرومائزڈ ہونے کا کہا جاتا ہے۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

شیئر: