Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منجمد اثاثے افغانستان کی ملکیت ہیں: شاہ محمود قریشی

افغانستان میں غربت کے باعث انسانی بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ منجمد اثاثے افغانستان کی ملکیت ہیں، یہ پیسہ افغان عوام کو پہنچانا اشد ضروری ہے خواہ اس کی ترسیل اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے ہو۔
سنیچر کو وزیر خارجہ نے افغانستان کے منجمد اثاثوں سے متعلق امریکی صدر کے فیصلے پر بیان دیا کہ افغانستان کی اگر بروقت مدد نہ کی گئی تو وہاں بحران سنگین صورت حال اختیار کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں خوراک کی قلت کی وجہ سے عوام بالخصوص خواتین اور بچے مزید متاثر ہوسکتے ہیں، فوری وسائل بہم پہنچائے جائیں۔
’ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں بچیوں کے سکول اور ہسپتال فعال ہوں، سکول کے اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے رقم درکار ہے۔‘
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں امن عامہ کی صورت حال خاصی بہتر ہے، وہاں مسئلہ اس وقت امن وامان کا نہیں، معاش کا ہے۔
’افغانستان میں اقتصادی انہدام کسی کے مفاد میں نہیں۔ اگر وہاں اقتصادی انہدام ہوتا ہے تو ہمیں وسیع پیمانے پر افغان مہاجرین کے بہاؤ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں حالات بہت سنگین ہوتے جارہے ہیں، وہاں ایک بحران جنم لے چکا ہے جس سے نمٹنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ’19 دسمبر کو اسلام آباد میں منعقدہ او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں بھی یہی قرار داد سامنے آئی تھی کہ افغانستان کی معاونت کے لیے منجمد فنڈز کو ریلیز کیا جانا چاہیے۔‘
’تاہم اب جو فیصلہ سامنے آیا ہے اس کے مطابق ساڑھے تین ارب ڈالر افغانستان کی انسانی معاونت کے لیے اور ساڑھے تین ارب ڈالر نائن الیون کے مثاثرین کے لیے دیے جا رہے ہیں۔‘
 وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کا پیسہ ہے اور اسے ان کی صوابدید پر چھوڑا جائے کہ وہ اسے کہاں استعمال کریں۔
’ان کا تقاضا ہے کہ انہیں اس وقت انسانی معاونت کی ضرورت ہے ان کے وسائل انہیں ملنے چاہییں۔ وہ (افغان) کہہ رہے ہیں کہ نائب الیون کے مثاثرین کا فیصلہ امریکہ کرسکتا ہے کہ ان کی دادرسی کیسے کرنی ہے۔‘
شاہ محمود قریشی  نے مزید کہا کہ ’اس وقت دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ اگر افغانستان کو بروقت انسانی معاونت فراہم نہ کی گئی تو 2022 تک ان کی بیشتر آبادی اس بحران کے باعث، سطح غربت سے نیچے چلی جائے گی۔‘

شیئر: