Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد پولیس کی فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت کے خلاف احتجاج

اسلام آباد پولیس کے مطابق پولیس کی فائرنگ سے ایک نوجوان کی ہلاکت کے واقعے میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ مقتول نوجوان کے لواحقین اور شہریوں نے قتل کے خلاف احتجاج کیا اور سری نگر ہائی وے کو بند کر دیا۔
جمعہ اور سنیچر کی درمیانی رات اسلام آباد کے سیکٹر جی ٹین میں ایک گاڑی پر پولیس کی فائرنگ سے اسامہ ندیم نامی نوجوان ہلاک ہوگیا تھا۔
اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں مقتول نوجوان کے والد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں اسلام آباد پولیس کے پانچ اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے۔ 
واقعے کے بعد لواحقین نے مقتول کی میت سری نگر ہائی وے پر رکھ سڑک کو بلاک کر دیا جس سے ٹریفک جام ہوگئی۔ احتجاجی مظاہرے میں سول سوسائٹی، تاجروں اور عام شہریوں نے بھی شرکت کی۔ 
آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار نے اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’رات پونے دو بجے جب ڈکیتی کی واردات کی اطلاع ملی تو پولیس نے ڈاکوؤں کا تعاقب کیا۔ ڈاکو سفید گاڑی میں فرار ہورہے تھے۔
’جس سڑک پر ڈاکوؤں کا پیچھا کیا جا رہا تھا اسی سڑک پر گاڑی نظروں سے اوجھل ہوئی تو دوبارہ ایک سفید گاڑی نمودار ہوئی۔‘
آئی جی اسلام آباد کے مطابق اس گاڑی کے شیشے کالے تھے اور پولیس نے سائرن بجا کر اور لائٹس جلا کر گاڑی کو روکنے کی کوشش کی۔ پانچ سے چھ کلومیٹر تک اس گاڑی کا پیچھا کرنے کے بعد پولیس اہلکاروں نے فائر کھول دیا جو کہ ان کی غلطی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہم اس واقعے کو چھپا نہیں رہے بلکہ پانچوں اہکاروں کو فوری طور پر گرفتار کرکے ان کے خلاف دہشت گردی اور قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقتول کے لواحقین کو ہرصورت انصاف دلایا جائے گا۔‘

ایف آئی آر میں اسلام آباد پولیس کے پانچ اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈی آئی جی وقار الدین سید کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے جو کہ نہ صرف مکمل تفتیش کرے گی بلکہ کیس کو منطقی انجام تک بھی پہنچائے گی۔‘ 
دوسری جانب مقتول نوجوان اسامہ ندیم کے والد نے اسلام آباد کے رمنا تھانے میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ان کا بیٹا رات دو بجے اپنے دوست کو یونیورسٹی چھوڑنے گیا تھا۔
’اسامہ ندیم کی ایک روز قبل پولیس اہلکاروں سے تلخ کلامی ہو گئی تھی اور اس بات کا ذکر انہوں نے مجھ سے کیا تھا۔‘
اسامہ ندیم کے والد کا موقف ہے کہ پولیس اہلکاروں نے ان کے بیٹے کو مزہ چکھانے کی دھمکی دی تھی، گذشتہ رات ان پولیس اہلکاروں نے میرے بیٹے کی گاڑی کا پیچھا کر کے اس پر فائرنگ کر دی جس سے وہ ہلاک ہوگئے۔
چیف کمشنر اسلام آباد عامر علی احمد نے پولیس کے ہاتھوں نوجوان کی ہلاکت کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا ہے۔

مقتول اسامہ ندیم کے والد نے پانچ پولیس اہلکارروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے 

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد رانا محمد وقاص انور واقعے کی انکوائری کریں گے۔
چیف کمشنر اسلام آباد کے دفتر سے جاری ہونے والے نوٹی فیکیشن کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پانچ روز کے اندر انکوائری مکمل کرکے اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔
اُدھر معلوم ہوا ہے کہ مقتول اسامہ ندیم کے خلاف وفاقی دارالحکومت کے تھانہ سیکرٹریٹ اور تھانہ رمنا میں میں دو مقدمات درج ہیں۔
ایک مقدمے کے مطابق اسامہ ندیم سے منشیات برآمد ہوئی جبکہ دوسرے مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ وہ ٹمپرڈ گاڑی استعمال کرتے پائے گئے۔
واقعے کے حوالے سے ڈی آئی جی آپریشنز وقار الدین سید کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کی گئی کہ ’واقعے میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔‘
ان کی اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے پولیس کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا۔
ٹوئٹر صارف مبشر رحمان نے تبصرہ کیا کہ پولیس کے مطابق اہلکاروں نے گاڑی کے ٹائر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، دیکھیں انہوں نے کہاں نشانہ لگایا۔
یہ صورت حال کچھ اور ہی داستان سنا رہی ہے۔ غصہ اور مایوسی، ان پڑھ اور معمولی خاندانی پس منظر، غصے سے بھرے، سفاک سلوک کا مظاہرہ کرنے والی نفسیاتی بیمار اسلام آباد پولیس‘
عمر حیات خان نے لکھا کہ ’یہ اوپن اینڈ شٹ کیس ہے وہ پانچ پولیس اہلکار اس نہتے معصوم نوجوان کے قاتل ہیں، ان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے، کہیں ایسا نہ ہوکہ سانحہ ساہیوال کی طرح اس کیس کو بھی دبا دیا جائے۔‘
فہد گوہر نے لکھا کہ ’اہلکاروں کو گرفتار کر کے کیا کر لیں گے سر آپ، ساہیوال میں بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ کیا کر لیا پولیس اور حکومت نے، پیٹی بھائی ہیں آپ بچالیں گے آپ ان کو بھی۔‘

شیئر: