Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ میں اپوزیشن کو ایک اور شکست، ’دلاور گروپ‘ کی حیثیت کیا؟

سینیٹر دلاور خان خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے علاقے پار ہوتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان میں اپوزیشن جماعتیں قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لیے سرگرم ہیں لیکن پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ) میں جہاں اِن جماعتوں کے سینیٹرز کی اکثریت ہے وہاں اپوزیشن کو حکومت کے مقابلے میں ایک بار پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جمعرات کو سینیٹ میں حکومت نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2022 بآسانی منظور کرا لیا۔
اوگرا ترمیمی بل کی منظوری سے قبل اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز نے ایوان میں تند و تیز تقاریر کیں۔ جب الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل کونسل بل 2022 پیش کرنے کی تحریک پر سینیٹ کے چیئرمین نے ووٹنگ کرائی تو دونوں اطراف کے 29، 29 سینیٹرز برابر تھے جس کے بعد چیئرمین صادق سنجرانی نے اپنا ووٹ تحریک کے حق میں دیا۔
یہ دیکھتے ہوئے اپوزیشن ارکان نے واک آؤٹ کیا تو حکومت نے اوگرا کا ترمیمی بل پیش کر کے یک طرفہ طور پر منظور کرایا۔
سینیٹ میں حزب اختلاف کے اراکین کی زیادہ تعداد کے باوجود گذشتہ دنوں اسے سٹیٹ بینک کے ترمیمی بل پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے ایک دوسرے کو ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
سینیٹ میں کُل ارکان کی تعداد 100 ہے جن میں سے اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان 51 ہیں مگر تاحال کسی بھی اہم قانون سازی کے دوران حکومت کو مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
سینیٹ میں جب کبھی حکومت کو کامیابی اور اپوزیشن کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو سینیٹر دلاور خان اور ان کے آزاد گروپ میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ بناتے ہیں۔

ضمنی فنانس بل یا منی بجٹ کی منظوری کے وقت بھی دلاور گروپ کے سینیٹرز کا کردار اہم رہا تھا۔ فوٹو: سینیٹ آف پاکستان ٹوئٹر

اس گروپ نے سینیٹ کے چیئرمین کے الیکشن اور بعد ازاں سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا فیصلہ کرنے کے دوران اہمیت حاصل کی۔
کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق نہ رکھنے والے آزاد سینیٹرز کا ’دلاور گروپ‘ کہلانے والا یہ گروپ گذشتہ دنوں سٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری کی حمایت کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں بھی آیا۔

سینیٹر دلاور خان کیا کہتے ہیں؟

سینیٹر دلاور خان سے اردو نیوز نے ان کے سیاسی کیریئر کے بارے میں جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ خاموش طبع شخص ہیں اور میڈیا سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔
دلاور خان نے بتایا کہ ان کا مزید سیاست میں رہنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ’یہ پہلی اور آخری بار ہے جو سینیٹر بنا۔‘
ایوان بالا میں تحریک انصاف کے 26 سینیٹرز ہیں جن میں سے فیصل واوڈا کو گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا۔
سینیٹ میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور مسلم لیگ فنکشنل بھی قانون سازی میں حکومت کی حمایت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود عددی اکثریت حاصل کرنے کے لیے دلاور خان گروپ اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سینیٹرز کا کردار حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
دلاور گروپ کے سینیٹرز کی تعداد چھ بتائی جاتی ہے جبکہ اس میں باپ پارٹی کے سینیٹرز بھی حصہ ڈالتے ہیں۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف منتخب ہونے کے لیے دلاور گروپ کے سینیٹرز نے یوسف رضا گیلانی کی حمایت کی تھی۔ فوٹو: سینیٹ آف پاکستان

سینیٹ میں عددی اکثریت نہ ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سینیٹر صادق سنجرانی کا چیئرمین رہنا بھی دلاور خان گروپ کے مرہون منت ہے جن کے تعاون سے اپوزیشن کی سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تھی۔
ضمنی فنانس بل یا منی بجٹ کی منظوری کے وقت بھی دلاور گروپ کے سینیٹرز کا کردار اہم رہا تھا جس کے بعد انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ وہ ’دینے والا ہاتھ ہیں۔‘
سینیٹر دلاور خان نے کہا تھا کہ وہ مراعات یافتہ نہیں اور جب بھی ملک و قوم کی بہتری کے لیے قانون سازی ہوگی تو اس کی حمایت کرتے رہیں گے۔

گروپ میں کون سے سینیٹرز شامل ہیں؟

دلاور خان گروپ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھتا ہے اور اس گروپ میں چھ سینیٹرز ہیں۔
گروپ کے تین سینیٹرز خیبر پختونخوا سے دلاور خان، ہدایت اللہ اور ہلال رحمٰن اور تین سینیٹرز بلوچستان سے باپ پارٹی کی حمایت سے منتخب ہونے والے کہدہ بابر، احمد خان اور نصیب اللہ بائیزئی ہیں۔

ن لیگ کے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے امیدوار تھے جن کو شکست ہوئی۔ فائل فوٹو: سینیٹ آف پاکستان ٹوئٹر

سرکاری ملازمت سے سینیٹر شپ تک

سینیٹر دلاور خان خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے علاقے پار ہوتی سے تعلق رکھتے ہیں۔
وہ سرکاری ملازمت کرتے رہے اور سنہ 2001 تک محکمہ کسٹمز میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھے۔
سنہ 2001 میں پرویز مشرف کی حکومت نے سرکاری محکموں میں کرپشن کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کے ذریعے مہم شروع کی تو دلاور خان کو گرفتار کیا گیا تاہم وہ پلی بارگین کر کے رہا ہو گئے۔
دلاور خان مارچ 2018 میں سینیٹر منتخب ہوئے اور ان کی چھ سالہ مدت مارچ 2024 میں ختم ہوگی۔

شیئر: