Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انٹینا والے ہیلمٹ پہن کر سائنس دانوں کی مدد کرتی ’سیلز‘

ایسی تحقیقات سے جانوروں کے طرز عمل اور ماحولیات کے بارے پتا لگانے میں مدد ملتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
انٹینا کے ساتھ سر پر ہیلمٹ پہنے سمندری سیل دیکھنے میں تو غیرمعمولی لگ سکتی ہے لیکن یہ آٹھ سیلز جاپانی محققین کو انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے پانی کا سروے کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان آٹھ سیلز کے سروں پر ڈیٹا اکھٹا کرنے کے لیے کچھ ڈایوئسز لگائی گئی ہیں جن کا وزن 580 گرام ہے۔
مارچ اور نومبر 2017 کے درمیان ایک تحقیقی پروجیکٹ کے لیے ان سیلز کا انتخاب کیا گیا ۔
ان کے سروں پر لگائی جانے والی ڈیوائسز میں درجہ حرارت اور گہرائی ماپنے والے سینسر بھی نصب کیے گئے تاکہ شدید سرد حالات میں سائنس دان ان علاقوں سے ملنے والے ڈیٹا کی مدد سے علاقے کے بارے میں مزید معلومات اکھٹی کر سکیں۔ جس میں پانی کا درجہ حرارت اور پانی میں نمک کی شرح شامل ہے۔
پروجیکٹ نگران نوبو کوکوبن نے کہا کہ ’اس طرح کی تحقیق سے سائنس دانوں  کو جانوروں کے طرزعمل اور ماحولیات کے بارے پتا لگانے میں مدد ملتی ہے۔‘

آٹھ سیلز کے سروں پر نصب کی جانے والی اس ڈیوائس کا وزن 580 گرام ہے (فوٹو: اے ایف پی)

روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں کوکوبن کا کہنا تھا کہ ’موسم گرما کے دوران ہم انٹارکٹیکا جا سکتے ہیں تاکہ ہم ڈیٹا اکھٹا کر سکیں لیکن سردیوں میں ایسی بہت سی چیزیں کی جا سکتیں۔ تاہم ایسی صورت حال میں سیل کے علاوہ بھی بہت سے جانور انٹارکٹیکا کے علاقے میں رہتے ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ ہمیں ان سے ڈیٹا اکھٹا کرنا چاہیے۔‘
سات سیلز سے کامیابی کے ساتھ حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ان میں سے ایک نے انٹارکٹیکا میں جاپان کے شووا سٹیشن کے ساحل سے 633 کلومیٹر تک کا سفر طے کیا جب کہ ایک اور سیل 700 میٹر کی گہرائی تک بھی اترا۔
کوکوبن نے کہا کہ سائنس دانوں نے ملنے والی ان معلومات سے یہ بھی سیکھا کہ کھلے سمندر میں بالائی سطح سے گرم سمندری پانی مارچ سے سردیوں تک انٹارکٹیکا پہنچتا ہے جو انٹارکٹک کرل جیسی سمندری مخلوقات ساتھ لاتا ہے جو سیلز کی خوراک کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔
انٹارکٹکا کے ساحلی علاقوں پر گلوبل وارمنگ کے اثرات کا جائزہ لینے والے کوکوبن نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ اس ڈیوائس کا حجم کم کر کے جنوبی علاقوں کے جانور جیسے پینگوئن وغیرہ پر بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پینگوئن کے ذریعے معلومات اکھٹی کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ وہ اسی جگہ پر واپس آجاتے ہیں جہاں سے سفر شروع کرتے ہیں اور ان سے ہم فوری طور پر ڈیٹا اکھٹا کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ پینگوئن کی ایک بڑی تعداد میں پر ڈیوائسز استعمال کر سکتے ہیں تاکہ وہ ایک وسیع علاقے کا احاطہ کر سکیں۔

شیئر: