Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہزادہ محمد بن سلمان کا اصلاحات، عالمی امور اور معیشت پر خصوصی انٹرویو

سعودی ولی عہد نے کہا کہ ’ہمارے منصوبوں میں سعودی عرب کا رنگ ہے اور یہ منفرد نوعیت کے منصوبے ہیں‘ (فوٹو: ایس پی اے)
سعودی ولی عہد و وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ بہت سے لوگ سعودی عرب کے وژن 2030 کو ناکام ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’میں بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت وژن 2030 کو ناکام نہیں کر سکتی۔‘
 سبق ویب سائٹ کے مطابق امریکی میگزین اٹلانٹک کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ’وژن 2030 کو ناکام کرنے کی کوشش کرنے والے زیادہ سے زیادہ اس کی رفتار کو پانچ فیصد سے کم کر سکتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے۔‘
انہوں نے کہا ہے کہ ’ہم دبئی یا امریکہ کی طرح نہیں بننا چاہتے بلکہ ہمارے ملک کی اپنی شناخت ہے، ہماری اپنی معاشی اور ثقافتی بنیادیں ہیں جن کی بنا پر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں۔‘
ولی عہد نے کہا ہے کہ ’ہم کسی اور جگہ قائم منصوبوں کی نقل نہیں کرنا چاہتے بلکہ ہم اپنے منصوبوں میں دنیا کو کوئی نئی چیز دینا چاہتے ہیں۔‘
’ہمارے منصوبوں میں سعودی عرب کا رنگ ہے اور یہ منفرد نوعیت کے منصوبے ہیں۔ مثال کے طور ہر العلا منصوبے کو لے لیں، یہ مقام صرف سعودی عرب میں ہے، اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں۔‘
شہزادہ سلمان کا کہنا تھا کہ اسی طرح درعیہ منصوبے کو دیکھیں، یہ دنیا کا سب سے بڑا ثقافتی منصوبہ ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہے۔ اسی طرح جدہ کے تاریخی علاقے کو دیکھیں تو یہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد منصوبہ ہے جس پر حجاز کا رنگ غالب ہے۔‘
’یہی حال نیوم منصوبے کا ہے جو اپنی نوعیت کا بہت منفرد منصوبہ ہے اور اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ہے۔‘
ولی عہد نے کہا ہے کہ ’میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب میں جتنے بھی منصوبے ہیں وہ کسی دوسرے منصوبے کی نقل نہیں بلکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہیں۔‘

نیوم اپنی نوعیت کا بہت منفرد منصوبہ ہے اور کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ہے: ولی عہد ( فوٹو نیوم ڈاٹ کام)

’سعودی انویسٹمنٹ فنڈ میں ہماری پاس پیسہ ہے اور حکومت کا اپنا بجٹ ہے، ہم اپنے وسائل کو بہترین طریقے سے استعمال کرتے ہوئے دنیا کو منفرد منصوبے دے رہے ہیں۔‘
ولی عہد نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب میں کوئی ایک بھی منصوبہ ایسا نہیں جیسے منسوخ کر دیا ہو یا اس پر کام نہیں ہوا، کوئی مثال ہے، نہیں ہے۔‘
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا اٹلانٹک کو انٹرویو:
دی اٹلانٹنک: میں 2019 سے یہاں آرہا ہوں۔ ہر مرتبہ سعودی عرب کو پہلے کے مقابلے میں مزید مختلف، مزید ترقی یافتہ پایا ہے۔ 2030 قریب ہے، اور یہ تھوڑا بہت دبئی جیسا ہے، یہاں تک کہ امریکہ جیسا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا سعودی عرب کم سعودی اور دنیا کے دیگر ممالک جیسا زیادہ ہوجائے گا؟
ولی عہد: ہم دبئی کی طرح یا امریکہ کی طرح بننے کی کوشش نہیں کررہے۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے ہم اس کی بنیاد پر ارتقا کررہے ہیں، اپنے معاشی اثاثوں اور سعودی عوام کی افرادی قوت کو بروئے کار لا کر ہم کچھ اس طرح ارتقا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ہم اس دنیا میں کچھ نیا شامل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے بہت سارے منصوبے منفرد ہیں جو سعودی عربی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ العلا کو دیکھیں تو یہ صرف سعودی ہے۔ ایسا کوئی اور ماڈل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ درعیہ کے منصوبے کے دیکھیں، جو دنیا کے بڑے ثقافتی منصوبوں میں سے ایک ہے، بالکل منفرد ہے۔
یہ نجدی تھیم پر مشتمل ایک ثقافتی ورثے کا منصوبہ ہے۔ اگر آپ مثال کے طور پر جدہ کے قدیم شہر کو دیکھیں اور اس کے گرد ہونے والی تعمیرات، یہ حجازی روایت ہے جو منفرد ہے۔ یہ سعودی عرب ہے۔
اگر آپ، مثال کے طور پر، نیوم کے اہم شہر دی لائن کو دیکھیں، تو یہ منفرد ہے۔ یہ سعودی عرب کی تخلیق ہے۔ یہ کسی کی نقل نہیں ہے۔ یہ پنپ رہا ہے اور وہ تخلیق کررہا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔
اور اگر آپ دیکھیں، مثال کے طور پر، قدیم ریاض کو جو تفریح، ثقافت، کھیلوں کے دنیا کے بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ اس کا رقبہ 300 مربع کلومیٹر ہے جو کئی چھوٹے ممالک سے بڑا ہے۔ اور یہاں بڑے تھیم پارکس، ثقافت اور کھیل، ریئل سٹیٹ، اور ان تمام کو اس طرح ایک دوسرے سے منسلک کیا گیا ہے جو اس سے پہلے اورلینڈو میں بھی کبھی نہیں کیا گیا یا مثال کے طور پر دنیا میں کہیں نہیں کیا گیا۔
چنانچہ ہم نقل نہیں کررہے، ہم جدت لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے سرمائے کو استعمال میں لانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ سرمایہ جو ہمارے حکومتی بجٹ میں ہے، ایسے طریقے سے استعمال کررہے ہیں جن کی بنیادی ہماری ثقافت پر ہے یا سعودی جدت جس کی بنیادی ہے۔
دی اٹلانٹک: لیکن
ولی عہد: صرف ایک مثال دیں! یہ منصوبہ کس کی نقل ہے؟ کسی کی نہیں۔
دی اٹلانٹک: کیا آپ اس نکتے تک سعودی عرب کو ماڈرنائز کر سکتے ہیں کہ سعودی عرب کا اسلامی کردار کمزور ہوجائے؟
ولی عہد: دنیا کا ہر ملک کسی نظریے یا عقائد کی بنیاد پر قائم کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر امریکہ کی بنیاد اس نظریات اور عقائد پر ہے: جمہوریت، آزادی، آزاد معیشت وغیرہ وغیرہ۔ اور عوام اس کی بنیاد پر متحد ہیں۔ لیکن تمام جمہوریتیں اچھی ہیں؟ کیا وہ تمام اچھے طریقے سے کام کررہی ہیں؟ بالکل نہیں۔
ہمارا ملک ان نظریات اور عقائد کی بنیادی پر قائم ہوا جن کی بنیاد اسلام پر ہے، ہماری قبائلی ثقافت،عرب ثقافت اور سعودی ثقافت کی منفرد صفات پر۔ یہ ہماری روح ہے۔ اگر ہم نے ان سے چھٹکارا حاصل کرلیا تو ہمارا ملک ٹوٹ سکتا ہے۔
ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ ہم کس طرح سعودی عرب کو ترقی اور جدت کے صحیح راستے پر ڈال سکتے ہیں، غلط راستے پر نہیں؟ اسی سوال کا سامنا امریکہ کو ہے: ہم کیسے جمہوریت، اور آزاد منڈی، اور آزادی کو صحیح راستے پر ڈالیں؟ کیونکہ یہ غلط راستے پر جاسکتا ہے۔
ہم اپنے عقائد کی نفی نہیں کررہے کیونکہ یہ ہماری روح ہے۔ حرمین شریفین سعودی عرب میں ہے اور انہیں کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ ہم پر ہمیشہ کے لیے حرمین شریفین کی ذمہ داری ہے اور ہم اپنے ملک کو سعودی عوام کے لیے، مذہب کے لیے، اور اپنے امن اور  بقائے باہمی کے عقیدے پر یقین رکھنے والی دنیا کے لیے اور دنیا بھر میں اپنا حصہ شامل کرنے کی ضرورت کے لیے۔  
دی اٹلانٹک: لیکن میرے خیال میں آپ اس امر سے بھی اتفاق کریں گے کہ جس طرح اعتدال پسند اسلام کی اس وقت ترویج کی جارہی ہے، یہ اس سے بہت مختلف ہے جو ہم نے 1983 میں آپ جیسے کسی  شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران دیکھا تھا۔
ولی عہد: میں ’اعتدال پسند اسلام‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کروں گا کیونکہ اس اصطلاح سے شدت پسند اور دہشت گرد خوش ہوسکتے ہیں۔
دی اٹلانٹک: وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بے عزتی ہے۔
ولی عہد: یہ ان کے لیے ایک اچھی خبر ہے کہ ہم یہ اصطلاح استعمال کررہے ہیں۔ اگر ہم ’اعتدال پسند اسلام‘ کہتے ہیں تو اس سے ظاہر کیا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک اسلام کو تبدیل کررہے ہیں جو کہ سچ نہیں ہے۔
ہم اسلام کی اصل تعلیمات کی طرف لوٹ رہے ہیں، جیسے پیغمبر اسلام اور خلفائے راشدین نے زندگی گزاری، جو کُھلے اور پُرامن معاشرے تھے۔ ان کی حکمرانی میں مسیحی اور یہودی بھی تھے۔ انہوں نے ہمیں تمام ثقافتوں اور مذاہب کی تعظیم کی تعلیم دی۔ پیغبر اسلام اور چاروں خلفا کی تعلیمات مکمل ہیں۔ ہم اپنی جڑوں کی جانب واپس جارہے ہیں، جو اصل چیز ہے۔ ہوا یہ کہ شدت پسندوں نے ہائی جیک کرلیا اور ہمارے مذہب کو اپنے مفادات کے لیے تبدیل کرلیا۔
وہ لوگوں کو اپنی نظر سے اسلام کو دکھانا چاہتے ہیں۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ ان سے کوئی بحث نہیں کررہا، اور ان کے خلاف کوئی بھی سنجیدگی سے برسرپیکار نہیں ہے۔ چنانچہ انہیں اپنے یہ تمام شدت پسندانہ نظریات پھیلانے کا موقع ملا، جس کی وجہ سے سنی اور شیعہ دنوں میں شدید قسم کے دہشت گرد گروہوں کی تخلیق ہوئی۔
دی اٹلانٹک: یہاں مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے افراد نے کہا کہ یہ شدت پسندی 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں الاخوان سے متاثر ہونے کا نتیجہ تھی۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ اس پر سعودی اثرورسوخ تھا، سعودی قدامت پسندی ایک حقیقت ہے۔
دی اٹلانٹک: وہابیت
دی اٹلانٹک: اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم الاخوان کے اثر سے چھٹکارا حاصل کررہے ہیں، یہ ایک بات ہے۔ لیکن آپ شدت پسندی کے سعودی حصے پر کیسے قابو پا رہے ہیں؟
ولی عہد: الاخوان المسلمین نے یہ تمام شدت پسندی پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہ پل تھا جس سے دوسروں کو شدت پسندی کی طرف پہنچایا گیا۔ جب آپ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ شدت پسند دکھائی نہیں دیتے، لیکن وہ آپ کو شدت پسندی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اسامہ بن لادن، الاخوان کے رکن تھے، داعش کے سربراہ الظواهری الاخوان کے رکن رہے۔ چنانچہ الاخوان المسلمین ایک راستہ ہے۔
ماضی کی کئی دہائیوں میں شدت پسند گروہوں کی تخلیق میں یہ ایک اہم عنصر رہا ہے۔ لیکن محض الاخوان المسلمین نہیں۔ اس میں بہت سے عناصر اور بہت سے واقعات شامل ہیں، نہ صرف مسلم دنیا میں بلکہ امریکہ میں بھی۔
مثال کے طور پر عراق پر حملہ، اس سے شدت پسندوں کو اپنا پیغام پھیلانے اور حامی بنانے کا موقع ملا۔ یہ بھی سچ ہے کہ سعودی عرب میں بھی کچھ شدت پسندوں نے، الاخوان المسلمین کے شدت پسند نہیں، اس میدان میں اپنا کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر 1979 میں ایران کے انقلاب کے بعد، اور مکہ میں مسجد الحرام کا محاصرہ کیا۔
وہابیت کے بارے میں، میں کہنا چاہوں گا کہ محمد ابن عبدالوہاب پیغامبر نہیں تھے، وہ فرشتہ نہیں تھے۔ وہ بہت سے دیگر عالموں کی طرح تھے جو پہلی سعودی ریاست کے دوران یہاں رہے، بہت سے سیاسی اور عسکری رہنماؤں کے ساتھ۔ مسئلہ یہ ہے کہ داعش کسی زندہ سعودی مذہبی شخصیت کی مثال پیش نہیں کرتی، جب ان کا انتقال ہوجاتا ہے وہ ان کے الفاظ کو توڑ موڑ کر سیاق و سبق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں۔
ابن عبدالوہاب سعودی عرب نہیں ہے۔ سعودی عرب میں سنی اور شیعہ ہیں، اور سنیوں میں چار مکاتب فکر ہیں، اور اہل تشیع کے بھی مختلف مکاتب فکر ہیں، اور ان کو کئی مذہبی بورڈز کی نمائندگی دی گئی ہے۔ آج، سعودی عرب میں کوئی بھی اپنے مکاتب فکر کے نظریات کی ترویج ایسے نہیں کرسکتا کہ مذہب کو دیکھنے کا صرف نظریہ ہو۔
شاید ایسا تاریخ کے کچھ حصوں میں ہوا ان واقعات کی وجہ سے جن کا میں نے ذکر کیا، بالخصوص 80، اور 90 اور 2000 کے ابتدائی برسوں میں لیکن آج ہم صحیح راستے پر واپس آچکے ہیں جیسا میں نے کہا۔ ہم اپنی جڑوں کی جانب واپس جارہے ہیں، خالص اسلام کی طرف، اس بات یقینی کو بناتے ہوئے کہ سعودی عرب کی روح، جس کی بنیاد اسلام، ہماری ثقافت خواہ قبائلی ہو یا شہری، عوام کی خدمت ہے، قوم کی خدمت، مذہب کی خدمت، ساری دنیا کی خدمت، اور معاشی ترقی ہے۔ اور گذشتہ پانچ برسوں میں ایسا ہی ہوا۔
چنانچہ آج، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم یہ کرسکتے ہیں۔ شاید اگر آپ 2016 میں انٹرویو کرتے تو آپ کہتے کہ میں قیاس آرائی کررہا ہوں، اور یہ سعودی عرب کے ولی عہد کا تجزیہ ہے۔ لیکن ہم نے کیا۔ آپ اپنی آنکھوں سے سعودی عرب میں دیکھ سکتے ہیں۔ آئیں اور دیکھیں، اور سعودی عرب کی چھ یا سات سال پہلے کی ویڈیوز دیکھیں۔ ہم نے بہت کچھ کیا ہے، اور ابھی بھی کچھ کام ہونا باقی ہیں۔ اور ہم انہیں یقینی بنائیں گے۔
دی اٹلانٹک: واشنگٹن میں جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی، ہم نے سرپرستی کے قوانین اور تبدیلی کی رفتار کے بارے میں بات کی تھی، اور آپ نے مجھے اپنے فون پر ایک شادی میں کچھ مردوں کی اپنے ہتھیاروں سے فائرنگ کی ویڈیو دکھائی تھی۔ اگر آپ کو یاد ہو؟
ولی عہد: مجھے یاد ہے۔
دی اٹلانٹک: اور آپ نے کہا تھا ’دیکھیں، مجھے درست رفتار سے جانا ہوگا۔ میں زیادہ تیز نہیں جاسکتا، کیونکہ افراد ایک مخصوص رفتار چاہتے ہیں۔‘ تین سال بعد اب میرا سوال ہے کہ کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اب تیزی سے جارہے ہیں؟ کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کو قبائلی اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے؟  
ولی عہد: میرا خیال ہے کہ میں نے آپ کو ویڈیو اس لیے دکھائی تھی کہ آپ نے سعودی عرب میں جمہوریت کے بارے میں پوچھا تھا۔
دی اٹلانٹک: جی ہاں۔
ولی عہد: سعودی عرب میں بادشاہت ہے، جس کی بنیاد اور قیام اس ماڈل پر ہے۔ اور میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بادشاہت کے نیچے قبائلی اور شہری بادشاہی نظام کا ایک پیچیدہ ڈھانچہ ہے جیسا کہ قبائلی سردار اور شہری رہنما۔ چنانچہ ہم ایک مثال دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ نیم قبائلی بادشاہت سعودی عرب میں کیسے دکھائی دیتی ہے۔
دی اٹلانٹک: آپ کہہ رہے کہ آپ زیادہ تیز نہیں جاسکتے۔
ولی عہد: نہیں، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ میں سعودی عرب کو بادشاہت سے کسی اور نظام میں تبدیل نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کی بنیاد 300 سال سے بادشاہت پر ہے اور یہ ایک پیچیدہ بادشاہی ڈھانچہ ہے، ہزاروں قبائلی اور شہری ںظام اس کا حصہ ہیں کہ ماضی میں لوگ کیسے رہے اور یہ آج کے سعودی عرب کا حصہ ہے اور یہ بادشاہت کا تسلسل ہے۔
سعودی شاہی خاندان میں السعود گھرانے میں پانچ ہزار سے زائد شاہی افراد ہیں۔ ان میں سے ہیت بیعت نے مجھے منتخب کیا تاکہ میں بادشاہت کے مفادات کی حفاظت کرسکوں جو ہزاروں قبائلی اور نیم قبائلی رہنماؤں پر مشتمل اس پیچیدہ ڈھانچے کو چلاتا ہے۔ اس نظام میں تبدیلی السعود کے ساتھ بے وفائی ہوگی، سعودی عرب میں ہزاروں قبائلی اور نیم قبائلیوں کے ساتھ بے وفائی ہوگی۔ لیکن وہ تمام رہنما سعودی عرب میں تبدیلی کے لیے مدد کرتے ہیں۔ چنانچہ میرا نہیں خیال وہ لوگ تبدیلی کے عمل کو سست کررہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مجھے مزید کام کرنے میں مدد کی۔
دی اٹلانٹک: آپ نے مجھے گذشتہ بار بھی بتایا تھا کہ آپ کیسے سعودی عوام کو سن رہے تھے، ان کی پسند کے بارے میں جان رہے تھے، تبدیلی میں ان کی کیا دلچسپی تھی۔ چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ ابھی آپ منزل پر نہیں پہنچے۔ آپ جو کچھ کرنا چاہتے تھے اتنا کچھ ابھی نہیں ہوا۔ کتنے قریب ہیں؟ اور جو کچھ آپ نے سوچا تھا اس سے آخری منزل کتنی مختلف ہے؟
ولی عہد: اگر میں آپ کو کہوں کہ میں نے آخری حد دیکھ لی ہے، اس کا مطلب ہوگا کہ میں ایک بہت برا رہنما ہوں۔ آخری حد دور ہوتی ہے۔ آپ بھاگتے جاتے ہیں، اور تیز بھاگتے ہیں۔ اور مزید حدیں بناتے ہیں اور بھاگتے ہیں۔ ہمارا عزم دوسروں سے تیز تر ہونا ہے اور دوسروں سے زیادہ حاصل کرنا ہے۔
دی اٹلانٹک: لیکن کوئی حد؟ کیا میں یہاں وہ کام کرسکوں گا جو میں امریکہ میں قانونی طور پر کرسکتا ہوں؟ یا کوئی حد ہوگی کیونکہ یہ ایک اسلامی ملک ہے؟
ولی عہد: معاشرتی طور پر
دی اٹلانٹک: جی، مثال کے طور پر؟
ولی عہد: اسلام میں مسلمانوں کے لیے کچھ اشیا ممنوع ہیں اور خدا نے اس کے لیے سزا کا تعین کیا ہے، اور کچھ دوسری چیزیں ہیں جن کے لیے خدا نے سزا کا تعین نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا فیصلہ افراد اور خدا کے درمیان ہے۔
لیکن اگر آپ غیر ملکی ہیں، اسلامی تعلیمات کا اطلاق آپ پر نہیں ہوتا۔ چنانچہ آپ ایک غیر ملکی ہیں جو سعودی میں رہ رہے ہیں یا سفر کررہے ہیں، آپ کو حق ہے کہ آپ اپنے عقائد کے مطابق جو کچھ کرنا چاہیں کرسکتے ہیں جب تک کہ وہ ملکی قوانین کی حدود میں ہے۔
پیغمبر اسلام اور خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ وہ معاشرتی قوانین کا اطلاق غیر مسلموں پر نہیں کرتے تھے، اس سے قطع نظر کہ وہ مقامی شہری ہیں یا ان کے ملک میں سفر کررہے ہیں۔
دی اٹلانٹک: جس روانی سے آپ اسلامی قوانین کے بارے میں بولتے ہیں وہ سعودی حکمرانوں میں بہت ہی نایاب ہے۔ جو پوزیشن آپ لے رہے ہیں وہ بہت ہی جدید پوزیشن ہے، تاہم یہ اسلامی سکالرز میں عام نہیں ہے۔ تو کیا ہم یہ امید رکھیں کہ مستقبل میں سعودی حکمران اسلامی قوانین کے سوالات میں بذات خود دلچسپی لیں؟ ماضی میں مذہبی سکالرز ہی اس معاملے کو کنٹرول کرتے رہے ہیں۔
سعودی ولی عہد: اسلامی قانون میں اسلامی اسٹیبلشمنٹ کا سربراہ ولی الامر یعنی حکمران ہوتا ہے۔ تو حتمی فیصلہ مفتی کا نہیں ہوتا بلکہ حتمی فتویٰ بادشاہ کا ہوتا ہے۔ تو مفتی اور فتویٰ بورڈ بادشاہ کے مشیر ہوتے ہیں جو کہ انہیں مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن اسلامی تعلیمات میں حکمران حتمی فتویٰ دیتا ہے اور اس کی بیعت کی جاتی ہے، تو حتمی فیصلہ سعودی عرب کے بادشاہ کا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ رائے دے سکتے ہیں، آپ کو رائے دینی چاہیے، آپ کو فقہ اسلامی، پیغمبر اسلام اور خلفا کے دور کے نظائر کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ آپ کو قرآن اور حدیث کو دیکھنا پڑتا ہے یہاں تک کہ آپ اپنی بات کو واضح کرتے ہیں۔
اس کے بعد آپ کو اس بات کو یقینی بنانا پڑتا ہے کہ لوگ اس کے لیے تیار ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں، اس کے بعد ہی بادشاہ کوئی فیصلہ کرتا ہے۔
لیکن اگر آپ بحیثیت بادشاہ اپنے اخیتارات کو استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں اور اس پورے پراسیس سے نہیں گزرتے ہیں، تو ایسی صورت میں سڑکوں پر مسائل پیدا ہوں گے اور یہ لوگوں کے لیے بھی ایک جھٹکا ہوگا۔
دی اٹلانٹک: میں نے سنا ہے کہ آپ حدیث متواتر کی اہمیت پر بات کرتے ہیں اور اسلامی قانون پر اس حد تک گفتگو ہم نے عموماً کسی ولی عہد یا بادشاہ سے کبھی نہیں سنی ہے۔
سعودی ولی عہد: یہی اسلامی دنیا میں پرامن مسلمانوں اور شدت پسندوں کے درمیان تقسیم کا بنیادی ماخذ ہے۔ احادیث کی تعداد دسیوں ہزاروں میں ہیں اور ان میں سے غالب اکثریت مستند نہیں اور انہی کو متعدد افراد جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کے جواز کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر القاعدہ اور داعش کے پیروکار ایسی احادیث کو اپنے نظریات کے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو بہت ہی ضعیف ہوتے ہیں اور ان کا حدیث ہونا بھی ثابت نہیں ہوتا۔
تو یہ بہت ہی سادہ سی بات ہے کہ اللہ اور قران ہمیں پیغمبر اسلام کی تعلیمات کی پاسداری کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اور پیغمبر اسلام کے زمانے میں لوگ قرآن اور رسول کی تعلیمات (احادیث) کو لکھ لیتے تھے تو پیغمبر اسلام نے حکم دیا کہ ان کی تعلیمات کو (احادیث) نہ لکھا جائے تاکہ بنیادی ماخذ قرآن ہی رہے۔ تو ہمیں احادیث کے حوالے سے بہت ہی محتاط ہونا پڑے گا۔ 
احادیث کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلی کیٹیگری حدیث متواتر کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس حدیث کو کئی لوگوں نے پیغمبر اسلام سے سنا اور ان سے اسے چند لوگوں نے سنا اور ان چند لوگوں سے مزید چند لوگوں نے سنا جس کے بعد اس کو احاطہ تحریر میں لایا گیا۔ یہ احادیث بہت ہی مستند ہیں اور ہمیں ان پر عمل کرنا چاہیے اور یہ احادیث تعداد میں بہت ہی کم ہیں جن کی تعداد 100 کے قریب ہے۔
دوسری کیٹیگری ان احادیث کی ہے جو کہ ’خبر واحد‘ کہلاتی ہیں۔ کسی ایک فرد نے حدیث پیغمبر اسلام سے سنی اور ان سے بھی فرد واحد نے سنی اور یہ سلسلہ آگے چل کر تحریر کرنے والے تک پہنچتا ہے۔ یا چند لوگوں نے اس حدیث کو پیغمبر اسلام سے سنا اور ان سے کسی واحد فرد نے سنا۔ تو اگر حدیث کے راویوں میں سے ایک فرد واحد ہے تو ایسی احادیث ’خبر واحد‘ کہلاتی ہیں۔
ایسی احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ آیا یہ قرآن کی تعلیمات کے خلاف تو نہیں یا یہ حدیث متواتر میں بیان کی گئی تعلیمات کے خلاف تو نہیں اور آیا یہ لوگوں کے مفادات کے خلاف تو نہیں اور ان بنیادوں پر آپ ان کو استعمال کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔
حدیث کی تیسری کیٹیگری ’خبر‘ ہے۔ کسی نے اسے پیغمبر اسلام سے سنا اور اس کے راویوں میں سے بعض نامعلوم ہوں۔ اور یہی وہی لاکھوں احادیث ہیں جنہیں آپ کو ہر صورت استعمال نہیں کرنا چاہیے ماسوائے ایک استثنیٰ کے۔ اگر آپ کے پاس تو آپشنز ہوں اور دونوں اچھی ہوں اور یہ عوام کے مفاد میں ہوں۔
تو یہی وہ چیز ہے جس کی ہم نشاندہی کرنے اور شائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں  تاکہ مسلم دنیا کو احادیث کے استعمال کے حوالے سے تعلیم دی جاسکے۔
اور میرا خیال ہے کہ اس سے بہت زیادہ فرق پڑے گا۔ اس میں وقت لگے گا۔ گوکہ ہم آخری مراحل میں ہیں اور ہم اس کو آج کے بعد سے دو سال کے اندر کرسکتے ہیں۔
یہ احادیث کو صحیح طور پر تدوین کرنے کا طریقہ ہے، کیونکہ جب لوگ مختلف کتب پڑھتے ہیں تو ان کا علم، دماغ یا مائنڈ سیٹ اتنا نہیں ہوتا کہ وہ صحیح اور ضعیف احادیث میں فرق کرسکیں۔ ہم صرف یہ لکھ رہے ہیں کہ یہ مستند حدیث ہے۔
دی اٹلانٹک: پھر میرا سوال یہ ہے کہ جب آپ اتنی روانی اور علم کے ساتھ اس پر بول سکتے ہیں تو آپ کو مفتی کی ضرورت کیوں ہے؟ آپ اسے خود سے کرسکتے ہیں۔
ولی عہد: کیونکہ مفتی کا کام لوگوں کے روزمرہ کے معمولات اور دلچسپوں کے حوالے سے سوالات کا جواب دینا ہے۔ مثلاً اگر کوئی رمضان کے مہینے میں روزے کی حالت میں کھاتا ہے اور وہ جاننا چاہتا ہے کہ اب سے کیا کرنا چاہیے۔
کیا اس نے گناہ کیا یا نہیں اور پھر وہ مشورے کے لیے کسی سے رابطہ کرتا ہے۔ تو اس پورے پراسیس کو ریگولیٹ کرنا ہے کیونکہ ہر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں جانتا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔ اس کے لیے آپ کے پاس حکومت کے سرٹیفکیٹس ہونے چاہییں۔ تو افتا بورڈ اور اس شعبے میں کام کرنے والے تمام لوگوں کا مقصد لوگوں کو ان کی ضروریات کے حوالے سے سوالات کے جوابات دینا ہے۔
دی اٹلانٹک: کیا میں آپ ہی کے بیان کردہ ایک واقعے کے بارے میں بات کرسکتا ہوں؟ آپ ہی نے پیغمبر اسلام کی برداشت کا واقعہ سنایا تھا کہ لوگوں کے گناہوں پر ان کا محاسبہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ لیکن سعودی عرب موت کی سزا تواتر سے استعمال کرتا ہے اور اس پر اسے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور سعودی عرب میں ہاتھ کاٹنے اور دیگر اسلامی سزائیں دی جاتی ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگوں کو گناہوں پر دی جانے والی ان جسمانی سزاؤں کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟
ولی عہد: سزائے موت تو ہم نے مکمل ختم کی ہے سوائے ایک کیٹیگری کے جس کا قرآن میں ذکر ہے اور ہم اس کے حوالے سے کچھ نہیں کرسکتے اور چاہیں بھی تو نہیں کرسکتے کیونکہ یہ قرآن میں ہے۔
اگر کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو عدالت جانے کے بعد مقتول کے خاندان کے پاس یہ حق ہوتا ہے کہ وہ سزائے موت کا نفاذ کرے یا اسے معاف کرے۔ یا اگر کوئی بہت سارے افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے تو اسے سزائے موت دی جاتی ہے اور یہ قرآن کی تعلمیات ہیں۔ میں اسے پسند کروں یہ نہ کروں میں اسے تبدیل نہیں کرسکتا۔
دی اٹلانٹک: لیکن آپ زیادہ سے زیادہ افراد کو معاف کرنے کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں؟
ولی عہد: ہم ایسا کررہے ہیں۔ اگر آپ کے پاس وقت ہے تو ہم آپ کو گورنریٹس لے جاسکتے ہیں اور اگر آپ ہیڈکوارٹرز جائیں گے تو وہاں ایک پورا محکمہ اس ایشو پر کام کرتا ہے۔ اگر کسی کو سزائے موت ہوتی ہے تو اس پر فوری عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اس پر عمل درآمد چھ ماہ یا ایک سال بعد ہوتا ہے تاکہ مقتول کے خاندان کو سوچ بچار کرنے اور ٹھنڈے دماع سے سوچنے کا وقت مل جائے۔ اور اس طرح بڑی تعداد میں موت کی سزائیں اس طرح کے تصفیوں کے نتیجے میں منسوخ کردی جاتی ہیں۔
تو ہم اس حوالے سے اپنی ہر ممکن کوششیں کررہے ہیں۔ کوڑوں کی سزائیں پورے سعودی عرب میں منسوخ کی جارہی ہیں۔ ان کو 100 فیصد منسوخ کیا گیا ہے۔ واحد ایشو اس وقت ہم جس پر کام کررہے ہیں وہ ہے کہ پورے ملک میں کسی کو بھی بغیر قانونی عمل کے سزا نہ دی جائے۔ تو اس وقت کچھ سزائیں ایسی ہیں جو جج کی صوابدید پر ہیں اور ہم کوشش کررہے ہیں کہ کوئی بھی سزا ایسی نہ ہو جو قانون کے بغیر ہو اور ہم اس پر بات کررہے ہیں اور آئندہ دو سے تین سال میں اس کو مکمل روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔
دی اٹلانٹک: اس سے متعلقہ ایک ایشو ہے، سی آئی اے کا کہنا ہے کہ ان کی رائے اور تحقیق کے مطابق آپ نے صحافی جمال خاشقجی کو قتل یا گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ سی آئی اے کی تفتیش کے ان نتائج پر آپ کا جواب کیا ہے؟
ولی عہد: پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی کا بھی اس طرح سے ناحق قتل بہت تکلیف دہ ہے۔ اور اگر کوئی پھانسی کا مستحق ہے بھی تو اسے قانونی عمل کے بعد سزا دی جائے اور اس کو اپنے دفاع کا پورا حق دیا جانا چاہیے۔ تو جو کچھ ہوا وہ بہت تکلیف دہ ہے اور ہماری خواہش ہے کہ کسی سعودی شہری یا دنیا بھر میں کسی کے ساتھ بھی ایسا نہ ہو اور یہ سسٹم کی بہت بڑی ناکامی تھا اور ہم نے نظام کی خامیوں کو دور کرنے اور اس طرح کا واقعہ آئندہ نہ ہو اس کی اپنی بھرپور کوشش کی ہے۔ اور ہم اس میں ملوث لوگوں کی تفتیش کرکے ان کو عدالتوں میں لے گئے اور پھر عدالتوں نے ان کو مختلف سزائیں دی اور اس وقت وہ اپنی سزائیں بھگت رہے ہیں۔ اور اسی طرح اس وقت بھی ہوا تھا جب امریکیوں نے عراق یا افغانستان یا گوانتاناموبے میں غلطیاں کیں۔ آپ نے ایک درست قدم اٹھایا اور ہم نے بھی وہی قدم اٹھایا۔
دی اٹلانٹک: لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا؟
ولی عہد: ظاہر ہے کہ میں یہ کیوں کروں گا؟
دی اٹلانٹک: ہم نے اس حوالے سے پہلے بھی گفتگو کی ہے اور آپ نے اس پورے واقعے اور تنازعے کے بارے میں ایسا کچھ کہا تھا کہ اس سے آپ کو بہت زیادہ تکلیف پہنچی۔
ولی عہد: بالکل، اس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ احساسات کے تناظر میں اس سے نہ صرف مجھے بلکہ پورے سعودی عرب کو تکلیف ہوئی۔
دی اٹلانٹک: احساسات کے تناظر میں؟
ولی عہد: ہم پر الزام لگایا گیا۔ میں لوگوں خصوصاً صحافیوں کے غصے کو سمجھ سکتا ہوں اور میں ان کے احساسات کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن ہمارے بھی احساسات ہیں، دکھ ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کیا گیا۔ میں خود سمجھتا ہوں کہ میرے حوالے سے انسانی حقوق کے قوانین پر عمل نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کے آرٹیکل 11 کے مطابق ہر کوئی معصوم ہے جب تک اس پر جرم ثابت نہ ہو۔ مجھے یہ حق نہیں دیا گیا۔ تو آپ مجھ سے انسانی حقوق پر بات کیسے کرسکتے ہیں جب آپ مجھے آرٹیکل 11 میں موجود میرا حق نہیں دے رہے ہیں۔ تو یہ کربناک احساسات ہیں کہ ہمارے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کیا گیا۔ تاہم دوسری جانب ہمیں دوسروں کے جذبات کا احساس ہے۔
لیکن میرے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس سال دنیا بھر میں 70 صحافی مارے گئے تھے۔ کیا آپ ان کے نام مجھے بتا سکتے ہیں۔ نہیں؟ آپ کا بہت شکریہ۔ کیا ساتھی صحافی کے لیے یہ حقیقی احساسات ہیں۔ مجھے ان 70 صحافیوں کے نام بتائیں جو رواں سال مارے گئے تھے۔
دی اٹلانٹک: تو آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ اس کیس کو بہت زیادہ توجہ ملی؟
ولی عہد: کیونکہ بہت سارے لوگ جو چاہتے ہیں کہ ہمارا آج منصوبہ 2030 ویژن ناکام ہو۔ لیکن وہ اس کو چُھو بھی نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ اس کی رفتار صرف 5 فیصد کم کرسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ یہ کچھ نہیں کرسکتے۔
کچھ ایسے گروپس ہیں لیکن میں کسی کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ تاہم کوئی بھی جس کے پاس علم ہو وہ مغرب اور مشرق وسطیٰ میں موجود ایسے گروپوں کے باہمی لنک کو سمجھ سکتا ہے جن کا مفاد ہماری ناکامی میں ہے۔
دی اٹلانٹک: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خاشقجی آپ کے منصوبوں کے خلاف اخوان المسلمین کے دلائل کو استعمال کررہے تھے؟
ولی عہد: میں نے اپنی پوری زندگی میں خاشقجی کا کوئی ایک آرٹیکل بھی مکمل نہیں پڑھا، نہ کسی سعودی اخبار میں اور نہ امریکی اخبار میں۔ جو کچھ میں نے پڑھا وہ میری روزانہ کی بریف اور جو کچھ اہم مقامی، علاقائی اور عالمی میڈیا میں چھپتا ہے وہ۔
دی اٹلانٹک: تو انہوں نے کبھی آپ کو پریشان نہیں کیا؟
ولی عہد: میں نے کبھی بھی ان کا پورا کالم نہیں پڑھا۔
دی اٹلانٹک: کیا آپ کو یقین ہے کہ ایسا کچھ دوبارہ نہیں ہوگا؟
 ولی عہد: میں اپنی پوری کوشش کررہا ہوں کہ یہاں ایسی گورننس اور ضوابط ہوں کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔ یہ میری کمٹمنٹ ہے، لیکن۔۔۔۔
دی اٹلانٹک: مثلاً اگر کسی دوسرے سکواڈ کا پتا چلے تو کیا آپ کو ملک پر اپنے کنٹرول کے حوالے سے پریشان نہیں ہونا چاہیے؟
ولی عہد: امید ہے کہ ایسا نہیں ہے اور میں اس کو یقینی بنانے کی اپنی ہر ممکن کوشش کررہا ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہمیں بہت نقصان ہوا ہے اور میں نہیں چاہتا ہوں کہ ایسا کوئی واقعہ دوبارہ ہو۔ وہ بہت بڑی غلطی تھی اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ دوباہ ایسا ہو۔
دی اٹلانٹک: میں خاشقجی سے صرف ایک بار ملا ہوں وہ بھی ان کے قتل سے چند ہفتے قبل۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ کیا آپ آل سعود کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں؟ تو ان کا جواب تھا، ’نہیں میرا خیال ہے آل سعود کو سعودی عرب پر ہمیشہ کے لیے حکمرانی کرنی چاہیے۔‘
جب ان کا قتل ہوا تو یہ مجھے یاد آیا اور میں نے سوچا کہ اگر ایسا شخص جو چاہتا ہو کہ آل سعود ہمیشہ کے لیے سعودی عرب پر حکمرانی کریں، اگر ان کو دشمن تصور کیا جاتا ہے تو ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جن کو دشمن سمجھا جاتا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں خوف کا ماحول ہے۔
ولی عہد: نہیں، میں اس پر یقین نہیں کرتا۔ اگر کسی صورت میں ایسا ہوتا بھی تو خاشقجی اس فہرست کے ٹاپ ہزار افراد میں بھی نہ ہوتے۔ اگر ہم بحث کے لیے فرض کریں کہ ہم ایسا کوئی آپریشن کررہے ہیں تو یہ پروفیشل ہوتا اور ٹاپ لسٹ کی کوئی شخصیت ہوتی۔
تو سوال یہ ہے کہ خاشقجی کیوں قتل ہوئے؟ یہ بہت بڑی غلطی تھی اور ہم اس طرح کے آپریشن پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم قانون سے ہٹ کر کسی آپریشن پر یقین نہیں رکھتے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے یا کوئی سعودی عرب کے لیے خطرہ ہے، یا سعودی عرب میں کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے یا باقی ماندہ دنیا کے لیے خطرہ ہے تو ہم اس کے خلاف سعودی قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔ اور یہی طریقہ کار ہے جس کو ہم نے ماضی میں فالو کیا اور یہ پراسیس ہم مستقبل میں بھی فالو کریں گے۔
دی اٹلانٹک: دوسرے قتل کے علاوہ خاشقجی کے قتل نے سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو خراب کیا۔ آپ کیا  چاہتے ہیں کہ جو بائیڈن آپ سے متعلق جانیں جو وہ نہیں جانتے؟ صرف
دی اٹلانٹک: جی؟
ولی عہد: مجھے کوئی پروا نہیں۔
دی اٹلانٹک: کیا مطلب؟
ولی عہد: یہ ان پر ہے کہ وہ امریکہ کے مفادات کے بارے میں سوچیں۔
دی اٹلانٹک: سعودی عرب میں امریکہ  کے مفادات کیا ہیں؟  
ولی عہد: میں امریکی شہری نہیں۔ لہذا مجھے نہیں معلوم کہ آیا کہ مجھے امریکی مفادات کے حوالے سے گفتگو کرنے کا حق ہے یا نہیں۔ البتہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے کچھ بنیادی مفادات ہوتے ہیں۔ یہ اقتصادی، سیاسی اور امن و امان سے تعلق رکھتے ہیں جو کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوتی ہے۔
 میں اپنے ملک کی معیشت کے پہیے کو کس طرح متحرک کرسکتا ہوں ، کس طرح ملکی امن وامان کو مضبوط بناسکتا ہوں؟ کس طرح ریاست کے اقتصادی و سیاسی تعلقات مستحکم کرسکتا ہوں؟ مجھے اس بات کا اطمینان حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے کہ میری ریاست محفوظ ہے۔ میری ریاست ترقی کررہی ہے۔  ریاست کے پاس سرمایہ کاری اور کاروبار کے مزید مواقع کیا ہیں؟ اس تناظر میں میرا خیال ہے کہ یہی امریکہ کے مفادات  ہوں گے جن کا تذکرہ میں نے ابھی کیا ہے۔  
سعودی عرب جی 20 کا رکن ملک ہے ،آپ 5 برس قبل ہماری رینکنگ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس وقت گروپ 20 میں ہم 20 ویں درجے کے قریب تھے۔ آج ہم جی ٹوئنٹی میں شامل ممالک کے درمیان 17 ویں درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ ہم 2030 تک 15 ویں درجے سے آگے جانے کے لیے کوشاں ہیں۔ مثلاً 2021 میں  ہمارا ہدف مجموعی قومی پیداوار میں  5.9 فیصد  جی ڈی پی گروتھ تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 2021 میں 5.6 فیصد شرح نمو کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس نتیجے نے ہمیں بلاشبہ دنیا کے تیز رفتار شرح نمو حاصل کرنے والے ممالک کی صف میں شامل کردیا۔ آئندہ برس شرح نمو 7 فیصد کے لگ بھگ ہوگی۔  
سعودی عرب کوئی چھوٹا ملک نہیں بلکہ یہ جی 20 ممالک کا حصہ ہے۔ یہ دنیا بھر میں تیزی سے آگے بڑھنے والا ملک ہے۔ یہ پہلو ہمیں یہ سوال کرنے کی تحریک دیتا ہے کہ  بین الاقوامی امکانات کہاں پوشیدہ ہیں؟ یہ سعودی عرب میں ہے۔ اگر آپ انہیں ضائع کرنا چاہتے ہیں تو مشرق وسطی ٰمیں کئی ایسی شخصیات ہیں جو اس سے بے حد خوش ہوں گی مگر اسی کے  ساتھ یہ  بات بھی مدنظر رہے کہ  یہ وہ لوگ ہیں جنہیں آپ روکنا چاہتے ہیں۔ میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔  
دی اٹلانٹک: آپ کی مراد کن لوگوں سے ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے کہ آپ انہیں روکنا چاہتے ہیں؟  
ولی عہد: آپ میری بات جیسی ہے اسے ویسے ہی قبول کرلیں۔  
دی اٹلانٹک: ہمیں اس مسئلے پر بات کرنے دیں؟ کیا آپ چین سے اس انداز میں مطمئن ہیں جس سے ماضی میں نہیں تھے؟  
ولی عہد: امریکہ کے ساتھ ہمارا طویل تاریخی تعلق ہے۔ سعودی عرب میں ہمارا ہدف امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بنائے رکھنا اور انہیں مضبوط کرنا ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہمارے سیاسی، اقتصادی، امن و امان، دفاعی اور تجارتی مفادات ہیں۔  ہمارے کئی طرح کے مفادات ہیں۔ ہمارے یہاں ان  مفادات کو مضبوط بنانے  کا بڑا موقع ہے۔ متعدد شعبوں میں مفادات کو کم کرنے کا بھی  موقع ہے۔ اگر آپ اس حوالے سے سعودی عرب کا موقف جاننا چاہتے ہیں تو ہم امریکہ کے ساتھ تمام شعبوں میں مفادات کا استحکام چاہتے ہیں۔  
کسی کو بھی ہمارے  داخلی معاملات  میں مداخلت کا حق نہیں۔ یہ  صرف ہم سعودیوں کا ہی حق ہے۔ کوئی بھی اس حوالے سے کچھ  نہیں کرسکتا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ سماجی امور میں آپ کا خاص نکتہ نظر ہے ، اگرآپ کا نکتہ نظر مضبوط ہے تو آپ  ہم پر دباؤ ڈالنے بغیرہی منوا سکتے ہیں۔
 آپ مجھے ایک مثال پیش کرنے کی اجازت دیں۔ ہم نے 60 یا  70 برس قبل غلامی کا نظام خود پر دباؤ سے متاثر ہوکر منسوخ نہیں کیا بلکہ یہ کام ہم نے اس لیے کیا کیونکہ اس حوالے سے بیرونی دنیا کا ہم نے اچھا اثر قبول کیا۔ سعودیوں نے بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کی۔ امریکہ اور یورپ وغیرہ کی کمپنیاں ہمارے یہاں آئیں۔ ان کمپنیوں نے سعودی عرب میں کام کیا۔ ان کمپنیوں کا اثر اچھا پڑا۔ اسی لیے ہم نے طے کیا کہ غلامی غلط رواج ہے اسے جاری نہیں رکھا جاسکتا بالاخر ہم نے غلامی کا رواج ختم کردیا۔  
تاریخ میں کبھی بھی دباؤ کا اچھا اثر برآمد نہیں ہوا۔ آئندہ بھی کبھی فائدہ مند نہیں ہوگا۔ اگر آپ کے پاس کوئی  درست سوچ  یا مناسب طریقہ فکر یا کوئی صحیح طریقہ کار ہے تو آپ اپنا طریقہ کار جاری رکھیں۔ اگر آپ  کا طریقہ کار درست ہوگا تو لوگ آپ کے پیچھے چلیں گے اور اگر غلط ہوگا تو لوگ اپنی سوچ وفکر پر عمل پیرا رہیں گےاور آپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی۔
مثلاً ہم اپنے یہاں سعودی عرب میں آپ کی امریکی ثقافت کو مانتے ہیں۔ آپ کے سوچنے کے طریقہ کار کو قبول کرتے ہیں۔ آپ کے یہاں کی ہر بات کو آپ کے لیے تسلیم کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کا تعلق آپ سے ہے۔ ہم آرزو کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی یہی طریقہ کار اپنایا جائے۔ ہم آپ کی بہت ساری باتوں سے جنہیں آپ درست سمجھتے ہوں اختلاف کرتے ہیں لیکن ہم آپ کی آرا کا احترام کرتے ہیں۔
ہم خود کو اس بات کا حق نہیں دیتے  کہ اس حوالے سے امریکہ میں آپ کو کسی قسم کی لیکچردیں۔ اس سے قطع نظر کہ ہم آپ کے ساتھ  متفق ہیں یا نہیں۔ یہی اصول ہم پر بھی لاگو ہوتا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ سعودی عرب میں ہم اس سماجی معیار تک رسائی حاصل  کرچکے ہیں جس کے ہم آرزو مند ہیں۔ اس کے باوجود ہم بحیثیت سعودی ایسی تبدیلیاں اپنا رہے ہیں جن کی بابت ہم مملکت میں پراعتماد ہیں اور ان تبدیلیوں کو اپنی ثقافت اور نظریات کی بنا پر درست سمجھتے ہیں۔  
دی اٹلانٹک: کیا چین کے مسئلے پر آپ دوبارہ گفتگو کرسکتے ہیں؟  
ولی عہد: سعودی عرب دنیا بھر کے تیز رفتار ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔ عنقریب یہ دنیا میں سب  سے شرح نمو حاصل  کرنے والا ملک بن جائے گا۔  ہمارے یہاں دنیا کے دس بڑے ریاستی فنڈز میں سے دو ہیں۔ مملکت دنیا بھر میں سب سے زیادہ  محفوظ غیرملکی اثاثے رکھنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ سعودی عرب تین آبناؤں آبنائے سوئس، آبنائے باب المندب اور آبنائے  حرمزکے درمیان واقع ہے۔
یہ بحر احمر اور خلیج عرب کے ساحل  پر آباد ہے۔ یہاں سے 27 فیصد عالمی تجارتی سامان گزرتا ہے۔ سعودی عرب امریکہ میں 800 ارب ڈالر کا سرمایہ لگائے ہوئے ہے۔ چین میں اب تک ہماری سرمایہ  کاری سو ارب ڈالر سے کم ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ وہاں ہماری سرمایہ  کاری بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ امریکی کمپنیاں سعودی عرب پر بڑی توجہ مرتکز رکھے ہوئے ہیں۔
ہمارے یہاں تین  لاکھ سے زیادہ امریکی کام کررہے ہیں۔ ان میں سے بعض کے پاس دونوں ملکوں کی شہریت ہیں اور وہ مملکت میں مقیم ہیں۔ ہر روز ایسے امریکیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لہذا کہہ سکتے ہیں کہ مفادات ڈھکے چھپے نہیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر آپ  سعودی عرب کو جتنا چاہیں  جیت سکتے ہیں اور کھونا چاہیں تو کھو سکتے ہیں۔  
دی اٹلانٹک: اگر یہ مان لیں کہ امریکہ داخلی امور میں سعودی عرب پر اثر انداز نہیں ہوسکتا؟  
ولی عہد: درحقیقت اگر آپ کسی ایسے معاملے میں ہم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے جسے ہم مانتے ہی ہیں تو دباؤ ڈال کر آپ اس کے نفاذ میں مشکل پیدا کردیں گے۔  
دی اٹلانٹک: امریکہ اپنے اتحادیوں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہتا ہے کہ آیا اس کے اتحادی کہاں تک قابل بھروسہ ہیں ۔  یہ بات امریکی مفادات یا اس کی آئیڈیالوجی جیسی پالیسیاں اپنانے کے تناظر میں دیکھی جاتی ہے۔ اگر ہم تیز رفتار معاشی شرح نمو دیکھ رہے ہوں اور اس کے ساتھ سیاسی آزادی نہ آرہی ہو یا اس کے ساتھ  سیاسی آزادی  کے برعکس صورتحال رونما ہورہی ہو تو ہماری رائے یہ ہوگی  کہ یہ اتحادی بڑی حد تک چین جیسا ہے اور روس سے بہت زیادہ مماثلت رکھتا ہے۔ کیا ایسے عالم میں ہمارا غیرمطمئن ہونے کا حق بنتا ہے یا نہیں؟  
ولی عہد: نہیں ہرگز نہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب کو لے لیجئے۔ کیا یہاں سماجی فروغ پیچھے کی طرف جارہا ہے یا آگے کی جانب؟ آپ صرف گذشتہ 5 سالوں میں جو کچھ ہوا اسے دیکھیے جو آج ہورہا ہے اسے بھی دیکھیں اور جو آئندہ برس ہوگا اس پر نظر ڈالیں۔ یہ بلاشبہ پیشرفت کا ہی پتہ دے رہا ہے۔ اس کے لیے کسی ماہر کی ضرورت نہیں۔ آپ صرف انٹرنیٹ پر ریسرچ کرلیں یا سعودی عرب کا مختصر سا چکر لگالیں آپ یہ سب کچھ  دیکھ سکتے ہیں۔ آپ لوگوں سے بات کیجیے۔
سعودی عرب میں آباد  33 ملین لوگوں میں سے  20 ملین سعودی ہیں۔ وہ آپ کو یہی بتائیں گے۔  سماجی تبدیلی کے حوالے سے ہم صحیح راستے پرگامزن ہیں۔ بہرالحال یہ بات درست ہے کہ حتمی مرحلہ سو فیصد آپ کے سماجی معیار کے مطابق نظر نہیں آئے گا۔ ہمیں یہ کہنے دیں کہ 70 سے 80 فیصد تک سماجی عمل آپ کے  معیار پر ہوگا۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج ہم جہاں ہیں وہ پچاس فیصد ہے۔ 20 تا  30 فیصد تک رسائی ہمیں حاصل کرنا ہے۔
ہم سو فیصد ویسے نہیں ہوسکتے۔ ہمارے یہاں سعودی عرب میں بعض عقائد ایسے ہیں جو ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ ان کا تعلق صرف مجھ سے نہیں بلکہ سعودی عوام سے ہے۔ میرا فرض ہے کہ سعودیوں کے عقائد کا احترام کروں۔ سعودی شہری کی حیثیت سے اپنے عقائد  کے دفاع کے لیے جدوجہد کرتا رہوں۔  
دی اٹلانٹک: بعض اوقات اس بات پرتعجب ہوتا ہے کہ خواتین کے مسائل سے متعلق امریکی، سعودی عرب کی کاوشوں کو خاطر خواہ طریقے سے تسلیم نہیں کرتے؟  
ولی عہد: ہم خواتین کے حوالے سے جو کچھ کررہے ہیں وہ اس لیے نہیں کہ ہمارے سر اس کا سہرا باندھا جائے۔ ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ، ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ عوام کی خاطر کررہے ہیں۔ اگر آپ حضرات صحیح نکتہ نظر سے معاملے کو دیکھیں گے تو آپ کا شکریہ لیکن اگر آپ  اس سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تو یہ آپ کا معاملہ ہے۔  
دی اٹلانٹک: کیا مستقبل میں سعودی عرب میں آئینی شاہی نظام برپا ہوسکتا ہے؟  
ولی عہد: نہیں، یہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ آئینی شاہی  نظام کسی قیمت پر کامیاب نہیں ہوگا۔ سعودی ریاست کا قیام مکمل شاہی نظام پر قائم ہے۔ اس کے تحت ہزاروں قوانین آتے ہیں۔ قبائل کے شیوخ، تحصیلوں اور بستیوں کے سربراہ ہیں۔ سعودی شاہی خاندان ہے جس کا میں نمائندہ ہوں۔ سعودی عوام ہیں جن کا میں ترجمان ہوں۔  یہ ہزاروں قوانین مملکت سعودی عرب کے فرمانروا کو اپنا قائد مانتے ہیں۔  وہی ان کے مفادات کا پاسبان ہے۔  اس کے  ماننے والے تقریباً  20 ملین سعودی شہریوں میں سے  13 تا 14 ملین سعودی ہیں لہذا میں 14 ملین سعودی شہریوں کے خلاف نہیں جاسکتا۔  
دی اٹلانٹک: کیا کبھی آپ کو جمہوریت کے نظریات یا کسی بھی شکل میں  آئینی شاہی نظام میں کوئی کشش نظر آئی؟  
ولی عہد: جی ہاں یقیناً بہت سارے پرکشش افکار ہیں۔ جمہوریت پرکشش ہے۔ آئینی شاہی نظام پرکشش ہے لیکن سارا معاملہ، مقام، طریقہ کار اور پس منظر پر منحصر ہے۔ امریکہ میں جمہوریت کا نظام شاندار ہے۔ اس سے دنیا کی سب سے بڑی قومی پیداوار والی ریاست معرض وجود میں آئی۔ اس سے پوری دنیا میں متعدد بڑے کام انجام پائے۔ لیکن یہ اس صورتحال کے تناظر میں قائم ہوئی اور ڈیزائن کی گئی جب اہل امریکہ  نے برطانوی حکمرانوں کو اپنے یہاں سے نکالا اور متحدہ ریاست استوار ہوئی۔
یہیں سے آپ لوگوں نے ترقی کا سفر شروع کیا۔ اگر بطور مثال  100 برس قبل والے امریکہ کو دیکھیں گے تو آپ کو وہاں انتہائی بے ہودہ سماجی نظریات نظر آئیں گے۔ یہاں سعودی عرب میں بھی ہمارا معاملہ ایسا ہی ہے۔ بہت سارے سماجی خیالات بے ہودہ نظر آرہے ہیں اور ہمارا ملک تبدیلی لاکر ترقی کررہا ہے۔  
یہ درست ہے کہ سعودی عرب مکمل شاہی ریاست ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بادشاہ اگلے دن بیدار ہوکر وہ سب کچھ  کرلے جو اسے اچھا لگے۔ ہمارے یہاں ریاستی امور کو چلانے کے لیے شرعی طریقہ ہے۔ یہ بنیادی بات ہے۔ ہمارے یہاں اقتدار کا بنیادی نظام ہے۔ جس میں یہ بات صاف الفاظ میں تحریر ہے کہ مملکت میں تین ریاستی ادارے ہیں پہلا انتظامیہ جس کے قائد منسٹرز کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے بادشاہ ہیں۔
جہاں تک دوسرے دو ریاستی اداروں (عدلیہ اور مقننہ) کا تعلق ہے تو بادشاہ ان کا قائد نہیں ہوتا۔ البتہ دونوں کی تقرری کا اختیار بادشاہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ فیصلہ سازی کے حوالے سے ایک مثال پیش کروں گا۔ ہم نے  2015 میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا چاہی لیکن ہم یہ کام 2017 سے قبل نہیں کرسکے۔ اس سے اس بات کی بخوبی وضاحت ہوجائے گی کہ ہم یہاں مقررہ قوانین کے مطابق کام کررہے ہیں۔
ہم اقتدار کے بنیادی نظام کے مطابق کام کرتے ہیں اور عوام ہمارے مدنظر ہوتے ہیں۔ تاہم اگر ہم ریاستی امور اندھا دھند طریقے سے خیمہ کلچر کے مطابق چلانے لگیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ ساری معیشت زمیں بوس ہوجائے گی اور کوئی بھی سعودی عرب میں سرمایہ نہیں لگائے گا۔
سعودی عوام ہم پر بھروسہ نہیں کریں گے۔ ہم اندھا دھند طریقے سے ریاستی امور نہیں چلا سکتے۔ یہ  طریقہ کار قذافی کا تھا۔ سعودی شاہی خاندان حکمراں خاندان کی حیثیت سے  600 برس قبل آیا۔ انہوں نے 300 برس قبل سعودی ریاست قائم کی۔ پھر 7 برس تک یہ ریاست صفحہ ہستی سے غائب ہوگئی۔اس کے بعد دوبارہ قائم ہوئی۔ پھر 10 برس تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی۔ ایک بار پھر بحال ہوئی۔ ہم نے اس منظر نامے سے بہت سارے سبق سیکھے۔ خود کو بہتر کیا۔ نظام حکومت کو جدید بنایا۔ نئی نسل جو بھی آتی ہے وہ مذکورہ3  ریاستی اداروں کی بنیاد پر چلتی ہے۔  
جب کوئی نیا بادشاہ  آتا ہے تو نیا ولی عہد آتا ہے۔ یہ دونوں ریاستی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ یہی ادارے سعودی عرب کی طاقت ہیں۔  
اسی پہلو نے سعودی عرب کو جی  20 میں شامل کرایا۔ مملکت پیٹرول کے 12 فیصد محفوظ ذخائر کی مالک ہے۔ یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ  ثابت شدہ تیل ذخائر رکھنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ مملکت کے پاس دنیا کے بڑے ریاستی فنڈز میں سے ہیں۔ یہ ایسا پہلو ہے  کہ ہر آنے والی نسل اس کی بنیاد پر تعمیر و ترقی اور مستقبل کے لیے سرمایہ کاری کرے گی۔ جیسا کہ   امریکیوں  نے گذشتہ 300  برس کے دوران کیا۔  
دی اٹلانٹک: میں نے بعض سعودیوں کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نسل کے ساتھ شاہی خاندان  کے افراد بڑھ جاتے ہیں۔ آخر میں ہوسکتا ہے کہ وہ حد سے زیادہ ہوجائیں۔ ایسا ہوگا تو شاہی خاندان کے بعض افراد کو خاندان سے نسبت کا اعزاز ہوسکتا ہے کہ نہ ملے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ ممکن ہے؟  
ولی عہد: جائیے اور ان سے بات کیجیے۔  
دی اٹلانٹک: مجھے پتا ہے کہ وہ کیا کہیں گے؟  
ولی عہد: ہمارے یہاں سعودی عرب میں شاہی خون کا کوئی تصور نہیں۔ شاہی خاندان کی حیثیت سے ہمارا طریقہ کار عوام کی خدمت اور ان کے اتحاد کا تحفظ ہے۔ ہم عوام کا حصہ ہیں۔ مثال دینا چاہوں گا کہ میری والدہ شاہی خاندان کی نہیں ہیں۔ ان کا تعلق یام قبائل کی ایک شاخ العجمان سے ہے۔ ان کی تعداد سعودی عرب میں 10 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اگر آپ شاہی خاندان پر نظر ڈالیں گے تو دیکھیں گے کہ ہماری شادیاں عام لوگوں میں ہوتی ہیں۔ ہم ان کا حصہ ہیں۔
ہماری نشوونما ان ہی کے درمیان ہوتی ہے۔ ہم جزیرہ نمائے عرب کا حصہ ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم بنو حنیفہ کی حیثیت سے کچھ علاقوں کے حکمراں تھے۔ اسلام سے قبل بھی ہمارا راج تھا۔ ہم نے الدرعیہ ریاست ایسے وقت میں قائم کی جس کی تاریخ نامعلوم ہے۔ اس کے بعد دوسری الدرعیہ ریاست 600 برس قبل قائم کی گئی۔ 300 برس قبل سعودی ریاست قائم کی گئی۔
اس تناظر میں ہم عوام کا حصہ ہیں۔ شاہی خاندان کے کسی بھی فرد کو ایسا کوئی اختیار حاصل نہیں جسے وہ عوام کے خلاف استعمال کرسکتا ہو۔ اگر شاہی خاندان کے کسی فرد نے کوئی شرعی حد والا کام کیا تو مملکت کے کسی بھی فرد کی طرح اسے مقررہ سزا دی جائے گی اور اگر اس نے کوئی جرم کیا تو اسے اس پر مقرر سزا ملے گی۔ سعودی عرب کے کسی بھی شہری کی طرح اسے بھی قانون کا سامنا کرنا ہوگا۔ جہاں تک شاہی خاندان سے اس کی نسبت کا تعلق ہے تو یہ قابل احترام اعزاز ہے۔  
دی اٹلانٹک: رٹز کارلٹن ہوٹل کے واقعے پر بات کرتے ہیں۔ یہ بہت زیادہ ہنگامہ خیز واقعہ ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ نے اعلٰی درجے کے ہوٹل کو جیل کے طور پر استعمال کیا۔ میرے رفیق کار برائن نے بڑی توجہ طلب بات کہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے کوئی جیل استعمال کی جاسکتی تھی لیکن اعلٰی درجے کا ہوٹل اس حوالے سے استعمال کیوں کیا گیا؟
ولی عہد: رٹز کارلٹن ہوٹل میں جو کچھ ہوا اس کا تعلق کسی کی گرفتاری سے نہیں تھا بلکہ ہوٹل میں ان ہی دو آپشنز میں سے کسی ایک کے انتخاب کی خاطر لایا گیا تھا۔  
پہلا آپشن یہ تھا کہ ہم ان کے ساتھ سارا معاملہ قانونی کے مطابق کریں۔ پھر پبلک پراسیکیوشن فرد جرم تیار کرے۔  
دوسرا آپشن یہ تھا کہ کیا وہ بات چیت کے  ذریعے کیس طے کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے 95 فیصد نے بات چیت کے راستے کا انتخاب کیا لہٰذا وہ مجرم نہیں تھے اور ہم انہیں اس بنیاد پر جیل میں نہیں رکھ سکتے تھے۔
وہ بات چیت اور معاملہ طے کرنے کی خاطر رٹز کارلٹن ہوٹل میں رہنے پر راضی تھے۔ 90 فیصد کیسز بات چیت کے ذریعے طے پاگئے، البتہ باقی ماندہ جن لوگوں نے بات چیت سے انکار کیا انہیں سعودی قانون کے مطابق پبلک پراسیکیوشن کے حوالے کردیا گیا۔ اچھی خاصی تعداد بات چیت اور عدالتوں کے عمل سے گزرنے پر بے قصور ثابت ہوئی۔  
دی اٹلانٹک: اس کا مطلب یہ ہے کہ رٹز کارلٹن کا ہدف حریف عناصر سے چھٹکارا حاصل کرنا نہیں تھا؟  
ولی عہد: اگر آپ حریفوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی بات کررہے ہیں تو میں کہوں گا کہ جن لوگوں کو رٹز کارلٹن ہوٹل میں رکھا گیا وہ اقتدار میں نہیں تھے۔ لہٰذا ایسے افراد سے جن کے پاس اقتدار نہیں ان سے میں اس طرح چھٹکارا کیونکر حاصل کروں گا۔  
اصل مقصد سعودی عرب میں ایک بڑے مسئلے کے  آگے بند باندھنے کی کوشش تھی کیوںکہ ہر بجٹ کا بڑا حصہ بدعنوانوں کی جیبوں میں جارہا تھا۔  
ہمارے یہاں تیل کے ماسوا مجموعی قومی پیداوار سے 5.6 فیصد شرح نمو نہیں اور بدعنوانی جاری رہنے کی صورت میں 2021 کے دوران سعودی عرب میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 50 فیصد اضافہ کسی قیمت پر نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر سعودی عرب میں جائز اور صحیح راستے پر چلنے کی سوچ رکھنے والے افراد نہ ہوں تو ہمارے یہاں نہ تو باصلاحیت وزرا ہوسکتے تھے اور نہ سرکاری اداروں میں دن رات جدوجہد کرنے والے باصلاحیت نمایاں عہدیدار، اور یہ ہدف اس صورت میں کسی قیمت پر حاصل نہ ہوتا اگر ملک میں بدعنوانی کا راج رہتا۔  
دی اٹلانٹک: آپ کے ذہن میں اس کا خیال کس طرح آیا؟  
ولی عہد: یہ خیال میرا نہیں تھا۔ دراصل شاہ سلمان نے 2015 کے آغاز میں بدعنوانی کی بیخ کنی کے احکامات جاری کیے تھے۔ حکومت فائلیں جمع کررہی تھی اور 2017 میں فائلیں تیار کرلیں۔  
کام کے مناسب طریقہ کار پر بات چیت ہوئی اور شاہ سلمان نے اس حوالے سے شاہی فرمان خود جاری کیا۔  
دی اٹلانٹک: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام موثر رہا؟  
ولی عہد: جی ہاں، یقینی طور پر زبردست پیغام گیا۔ بعض لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ سعودی عرب بڑی مچھلیوں کو شکار کرنے کے لیے کوشاں تھا تاہم 2019 سے 2020 تک انہیں احساس ہوگیا کہ اگر ان میں سے کسی نے 100 ڈالر بھی چرائے تو انہیں خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔  
دی اٹلانٹک: ایک لمحے کے لیے قطر کی بات کرتے ہیں، چند ماہ قبل قطر سے متعلق آپ کا جو موقف تھا وہ اب بہت زیادہ بدل گیا ہے؟  
ولی عہد: یہ ایک خاندان کے افراد کا جھگڑا تھا۔  
دی اٹلانٹک: کیا یہ خاندانی جھگڑا اب ختم ہوگیا ہے؟  
ولی عہد: یقیناً۔ خاندان بہرحال خاندان ہوتا ہے۔ بھائیوں کے درمیان جھگڑا ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ جھگڑے پر قابو پالیں گے اور زیادہ بہتر دوست بن جائیں گے۔ جی سی سی ممالک میں بھی یہی نظام رائج ہے۔ ہمارے یہاں میرے خیال کے مطابق 90 فیصد سیاسی آرا ایک جیسی ہیں۔ ہم سب کو امن وامان کے ایک جیسے خطرات درپیش ہیں۔ چیلنج یکساں ہیں اور اقتصادی مواقع بھی ایک جیسے ہیں۔ ہمارے یہاں سماجی میل ملاپ اور معاشرے کے طور طریقے ایک جیسے ہیں۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمام جی سی سی ممالک ایک ریاست کی طرح ہیں۔  
اسی احساس نے ہمیں جی سی سی کے قیام کی تحریک دی اور اسی نے ہمیں مل جل کر کام کرنے کی رغبت دلائی۔ مشترکہ جدوجہد ہمارے امن وامان کی ضامن ہے۔ یہ ہمارے اقتصادی پلان کی کامیابی کی ضامن ہے۔
 وقت بتائے گا کہ ہمارا سیاسی ایجنڈا بھی کامیاب ہوسکتا ہے یقیناً ہمارے درمیان کچھ اختلافات بھی ہیں تاہم ہمارا فرض ہے کہ مفادات پر زیادہ زور دیں اور اختلافات حل کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔  
دی اٹلانٹک: بعض سعودی سمجھ رہے تھے کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ جیسی کوئی چیز ہے۔ وہ خوفزدہ تھے کہ اگر انہوں نے قطر کی حمایت کی تو ان کے یا ان کے رشتے داروں کے ساتھ برا سلوک ہوگا۔ اب جبکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں اچانک گرم جوشی آگئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ دونوں کے درمیان صلح ہوگئی ہے آپ اب کیسا محسوس کرتے ہیں؟ یہ تو بڑی تبدیلی والی بات ہے؟  
ولی عہد: میں منفی پہلوؤں پر گفتگو کرنا نہیں چاہتا۔ صورت حال پر قابو پالیا گیا ہے۔ اب قطر کے ساتھ ہمارے تعلقات شاندار ہیں۔ شیخ تمیم مثالی شخصیت کے مالک اور شاندار لیڈر ہیں۔ یہی حال خلیجی ممالک کے دیگر قائدین کاہے۔
ہمارا ہدف اور سارا زور روشن مستقبل کی تشکیل کے طریقہ کار پر ہے۔ وہ ہم سے اب بہت زیادہ قریب ہیں اور ہم تاریخ کے کسی بھی وقت کے مقابلے میں اب زیادہ بہتر حال میں ہیں۔  
دی اٹلانٹک: ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا آپ ایران کے ساتھ زیادہ خوش گوار تعلقات چاہتے ہیں، ایران کے ساتھ خاندانی جھگڑا نہیں اور وہ جی سی سی ممالک کا بھی حصہ نہیں؟  
ولی عہد: ایرانی ہمارے ہمسائے ہیں۔ ہمیشہ ہمسائے رہیں گے۔ ہم ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے اور نہ  ہی وہ ہم سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں، لہٰذا بہتر ہوگا کہ ہم اختلافات طے کریں۔ پرامن بقائے باہمی کے طور طریقے تلاش کریں۔
ہم نے گذشتہ 4 ماہ کے دوران مباحثے کیے۔ ایرانی قائدین سے متعدد بیانات سننے کو ملے۔ مملکت کی طرف سے ان کی پذیرائی کی گئی۔ ہم مذاکرات کی تفصیلات طے کرنے کی پالیسی پر گامزن رہیں گے۔ آرزو ہے کہ کسی ایسے موقف تک رسائی حاصل کرلیں جو دونوں ملکوں کے  لیے بہتر ہو اور سعودی عرب و ایران کے  لیے روشن مستقبل کی اساس بن جائے۔  
دی اٹلانٹک: آپ ایٹمی معاہدے کو پسند کرتے ہیں یا نہیں؟  
ولی عہد: میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں کسی بھی ملک کے پاس ایٹم بموں کا ہونا خطرناک امر ہے، چاہے وہ ایران ہو یا کوئی اور ملک ہو لہٰذا ہم اسے پسند نہیں کرتے اور ہم کمزور ایٹمی معاہدے کے بھی حق نہیں ہیں کیونکہ بالآخر اس کا بھی وہی نتیجہ نکلے گا جو پہلے معاہدے کا نکلا تھا۔  
دی اٹلانٹک: اسرائیلی وزیراعظم نے حال ہی میں ابوظبی کا دورہ کیا۔ کیا آپ کے خیال میں سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے سلسلے میں بعض عرب ممالک کے نقش قدم پر چلے گا؟  
ولی عہد: جی سی سی ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی ملک ایسا سیاسی اور امن وسلامتی یا معاشی اقدام نہیں کرے گا جس سے کونسل کے دیگر ممالک کو نقصان پہنچتا ہو۔
تمام جی سی سی ممالک اس بات کے پابند ہیں۔ اس دائرے سے باہر جی سی سی کے ہر ملک کو اپنے نکتہ نظر کے مطابق کسی بھی اقدام کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ انہیں مناسب حال کسی بھی فیصلے کا پورا حق ہے۔ متحدہ عرب امارات کو فیصلے کا حق ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کا مسئلہ حل ہو۔ ہم اسرائیل کو دشمن کی حیثیت سے نہیں بلکہ متعدد مفادات کے حوالے سے ممکنہ اتحادی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ممکن ہے ہم مل کر ان مفادات کے حصول کے لیے کوشاں ہوں لیکن اس منزل تک پہنچنے سے قبل بعض مسائل کا تصفیہ ضروری ہے۔  
دی اٹلانٹک: بعض لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ تنقید کے حوالے سے بے حد الرجک ہیں۔ یہ تاثر خاشقجی کے قتل کیس کے بعد کھل کر سامنے آیا۔ مسئلہ صرف خاشقجی کا ہی نہیں، میں جانتا ہوں کہ آپ کو اپنے بارے میں جو بائیڈن کے خیال سے بھی کوئی دلچسپی نہیں لیکن آپ خالص شاہی نظام کے نمائندہ ولی عہد ہیں اور آپ کے پاس بڑے اختیارات ہیں۔ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ آپ جیسے عہدیدار کو تنقید کے ساتھ گزر بسر کرنی چاہیے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ناقدین کے ساتھ اچھے انداز میں پیش آتے ہیں؟  
ولی عہد: اس سوال کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ اگر میں تنقید برداشت نہ کرتا ہوتا تو آج یہ سوال، اس سے پہلا سوال اور آنے والا سوال سننے کے لیے آپ کے ساتھ نہ بیٹھتا۔  
دی اٹلانٹک: کیا میں رٹز کارلٹن ہوٹل میں ہوتا؟  
ولی عہد: اچھا پہلو یہ ہے کہ یہ ہوٹل فائیو سٹار ہے۔ میں جو بات یہاں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پتا نہیں اس قسم کا نتیجہ کہاں سے نکال لیا گیا؟ اگر آپ کسی خاص مثال پر بات چیت کرنا چاہتے ہوں تو میں جواب دے سکتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ سعودی میڈیا کو سرکار کی کارکردگی اور سرکاری سکیموں پر وہ کیسی بھی کیوں نہ ہوں تنقید کرنی چاہیے کیونکہ یہ اچھی بات ہے۔  
دی اٹلانٹک: کیا یہ لوگ خاطر خواہ شکل میں ایسا نہیں کررہے ہیں؟  
ولی عہد: یہ لوگ عمدہ طریقے سے یہ کام کررہے ہیں۔ متعدد مسائل  پر مباحثے کرتے ہیں۔ افکار و خیالات پیش کرتے ہیں۔ ہر سکیم، ہر حکمت عملی اور ہر وزارت کی پالیسی پر اظہار خیال کرتے ہیں، یہ اچھی بات ہے۔  
ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ مختلف آرا کی ضرورت آپ کو بھی ہوتی ہے اور سعودی عرب کے ولی عہد کی حیثیت سے مجھے بھی اس کی ضرورت پڑتی ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ جب بھی سعودی عرب سے متعلق لکھتے ہیں تو اگر ان کی رپورٹنگ اصولی ہوتی ہے کسی ایجنڈے یا کسی خاص آئیڈیالوجی سے بالا رپورٹنگ کی جاتی ہے تو وہ ہمارے لیے بے حد مفید ہوتی ہے۔ ہم نے اس قسم کی رپورٹوں اور کالموں سے اپنی بعض غلطیوں کی اصلاح کی۔ لہٰذا یہ اچھی بات ہے ہمیں اس کی ضرورت ہے۔  
 دی اٹلانٹک: کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے مشیران آپ کو سچا اور دوٹوک مشورہ دیتے ہیں؟ صرف آپ کا بھائی ہی نہیں دیگر بھی؟ کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے اطراف جو لوگ ہیں وہ آپ سے سچی بات کرتے ہیں اور دوٹوک گفتگو کرتے ہیں؟  
ولی عہد: جی ہاں۔ اگر میرے اطراف آنکھ بند کرکے مرضی کی بات کرنے والے ہوں گے تو انہیں پہلی فرصت میں ساتھ چھوڑنا ہوگا۔  
دی اٹلانٹک: کیا آپ بحث پسند کرتے ہیں؟  
ولی عہد: جی ہاں۔ مجھے بحث پسند ہے۔ میں ڈیوٹی پر جاتا ہوں میرا خیال ہے کہ منسٹرز کونسل کا ہر وزیر اور ایوان شاہی کا ہر مشیر اعلٰی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ ان کی موجودگی میری خوش بختی ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران انہیں جمع کرسکا ہوں۔ یہ اعلٰی درجے کے ذہن اور حیرت انگیز افکار کے مالک ہیں۔
یہ اپنے نظریات سے بے حد محبت رکھتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں کام کررہے ہوں کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کے لیے پوری قوت اور لگن سے کام کرتے ہیں۔ آخر کار جیسا کہ آپ جانتے ہیں سعودی قوانین کے تناظر میں مملکت کے وسیع تر مفاد میں ہی فیصلے لیے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر منسٹرز کونسل میں فیصلے نہ تو بادشاہ کرتا ہے اور نہ ہی ولی عہد۔ وزرا کہتے ہیں کہ ہمیں قانون کے مطابق ایسا کرنا ہوگا۔ بادشاہ اور ولی عہد شروع میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لے سکتے۔
ہم دونوں سب سے آخر میں ووٹ ڈالتے ہیں تاکہ وزرا کے افکار یا خیالات پر اثر انداز نہ ہوں۔ متعدد وزرا ان امور کے خلاف ووٹ ڈالتے ہیں میں جن کے حق میں ووٹ ڈالتا ہوں۔ اس کے باوجود وہ حکومت سے منسلک ہیں اور بہت سارے شاندار کام کررہے ہیں۔ کسی بھی ادارے یا کمپنی یا ریاست کے لیے یہ طریقہ کار ضروری ہے۔
دی اٹلانٹک:  کیا آپ کو کسی سزا یافتہ کو معافی دینے یا سزا میں تخفیف کا اختیار حاصل ہے؟ مثلا کویت نے حال ہی میں سیاسی قیدیوں کی معافی کا اعلان کیاـ آیا یہ آپ کے اختیارات کے دائرے میں ہے اور کیا آپ ایسا کرنے کا سوچ رہے ہیں؟ 
ولی عہد:ایسا میرے دائرہ اختیارات  سے باہر ہے، یہ شاہی اختیارات کا حصہ ہے۔ مثال کے طور پر امریکی صدر کو معافی دینے کا حق حاصل ہے اور مملکت میں یہ اختیار بادشاہ کا ہے۔ 
مثال کے طور پر ہمارے یہاں بائیں بازو کے انتہا پسند اور دائیں بازو کے انتہا پسند پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ نے کسی کو کسی معاملے میں معافی دے دی تو آپ کو برے لوگوں کو بھی معافی دینا ہوگی۔ اگرایسا ہوا تو سعودی عرب میں معاملات یکسر مختلف ہوجائیں گے۔ 
دی اٹلانٹک:  اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ مرحلے  میں یہ کام پرخطر ہے؟ 
ولی عہد: بادشاہ کی مرضی ہے کہ یہ کام عدلیہ کے ہاتھ میں ہو۔ اگر ہمارے یہاں مسائل ہوں تو انہیں عدالتی نظام میں بہتری لاکر حل کیا جائے گا۔ 
دی اٹلانٹک: جب میں نے سعودیوں سے دریافت کیا کہ مملکت میں کس تاریخی شخصیت کا تقابل ولی عہد سے کیا جاسکتا ہےـ  تو ان کا جواب تھا کہ اس حوالے سے سرفہرست نام شاہ عبدالعزیز کا ہے۔ انہوں نے شاہ فیصل کا  نام بھی لیا کیونکہ انہوں نے ایسے مرحلے میں ملک کا اقتدار چلایا تھا جب مملکت بڑے خطرات سے گزر رہی تھی۔ کمیونزم اور جمال عبدالناصر کی سوچ کے علمبردار اور ایسے ہی دیگر رجحانات چل رہے تھے۔ سعودی شہریوں نے یہ بھی کہا کہ شاہ فیصل آپ کے مقابلے میں مخالفین کے ساتھ سزاؤں کے  حوالے سے سخت نہیں تھے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ  آپ ایسے دور میں حکومت کررہے ہیں جب ملک کو شاہ فیصل کے دور سے کہیں زیادہ گھناؤنے خطرات درپیش ہیں؟ 
ولی عہد: ایک بار پھر یہ بات دہرانا چاہوں گا کہ سزاؤں کا فیصلہ میں نے ذاتی طور پر نہیں کیا، سعودی عدلیہ نے فیصلے  کیے۔ میں سعودی عرب کے عدالتی نظام کا دفاع نہیں کررہا ہوں اور نہ یہ کہہ رہاہوں کہ یہ دنیا کا سب سے بہتر عدالتی نظام ہے۔ میں جانتا ہوں کہ  عدالتی نظام کو بہتر بنانے اور اس میں تبدیلی لانے کے لیے کافی لمبا راستہ ہے۔
یہ کام  وزرا کونسل اور مجلس شوری کے ذریعے انجام دیا جائے گا۔ ہم نے بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔ عالمی درجے کے اعلی معیار تک رسائی کے لیے ہمیں طویل راستہ طے کرنا ہوگا۔ ایک بار پھر یہ بات دہراتا ہوں کہ میں نے کسی کے خلاف کوئی سزا کا فیصلہ نہیں کیا۔ سارے فیصلے بالاخر عدلیہ کی طرف سے ہوئے۔ مختلف اوقات میں ہمارے یہاں مختلف قسم کے واقعات ہوسکتے ہیں اور سعودی قانون اور جج کے صوابدیدی اختیارات کے حوالے سے فیصلے ہوسکتے ہیں۔
دی اٹلانٹک: میں مختلف انداز میں سوال رکھنا چاہوں گا۔ یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب کے حوالے سے ہم امید افزا وقت کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ کیا ہم بڑے خطرات سے بھرپور اوقات بھی دیکھنے والے ہیں؟ 
ولی عہد: کیسے خطرات؟ 
دی اٹلانٹک: سیاسی عدم استحکام کا خطرہ، اقتدار میں تسلسل کے فقدان سے منسلک خطرہ۔ ہمیں آپ کے متعدد مشیران نے یہ بات کہی ہے کہ اگر ولی عہد کامیاب نہ ہوئے تو ایسی صورت میں ’اسلامی عرب ریاست‘ قائم ہوسکتی ہے اور ہم حقیقی المیے سے دوچار ہوسکتے ہیں؟ 
ولی عہد: بلاشبہ بادشاہ اور میری ذمہ داری ہے کہ اقتدار کا محور نہ تو ان کی ذات ہو اور نہ میری۔ ہم نے سعودی عرب میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔
ہم نے ہر نسل کے حوالے سے ہونے والی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ ہم بڑی بے قراری سے صورتحال پر نظر رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے ماضی کی غلطیاں دوبارہ نہ ہو۔ سعودی عرب میں جتنے بھی منصوبے ہو اقتدار کا تسلسل ضروری ہے۔ جانشینی پرامن انداز میں ہو۔ اقتدار کا سلسلہ برقرار رہے۔ اگر آپ گذشتہ سو برس پر نظر ڈالیں گے تو دیکھیں گے کہ اقتدار پرامن طور پر منتقل ہورہا ہے۔ بادشاہ کی وفات کے  اگلے لمحے ہی ولی عہد مملکت کا بادشاہ بن جاتا ہے اور نئے ولی عہد کی  تقرری عمل میں آجاتی ہے۔ اللہ تعالی بادشاہ کو عمر دراز عطا کرے۔
دی اٹلانٹک: اس کا مطلب یہ ہے کہ ‘جن لوگوں نے مجھ سے بات چیت کرتے وقت یہ کہا تھا کہ ’اگر سعودی وژن 2030 کامیاب نہ ہوا تو سعودی عرب میں جغرافیائی اور سیاسی المیہ جنم لے گا‘ وہ مبالغے سے کام لے رہے تھے؟ 
ولی عہد: مجھے اس بات کا علم نہیں کہ اس کے  نتائج کیا ہوں گے؟ امید کرتا ہوں کہ اس حوالے سے سوچ بچار نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی مبینہ نتیجے کی بات کرنا چاہئے۔ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ اقتدار کے تسلسل کے طریقہ کار کی بابت سوچیں اور یہ سوچیں کہ کس طرح پیشرفت حاصل کرسکتے ہیں اور جو چاہتے ہیں انہیں حاصل کس طرح کرسکتے ہیں۔  
دی اٹلانٹک: میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ ’بیعہ بورڈ‘  کے ضوابط میں تبدیلی ہورہی ہے؟ تبدیلی یہ ہے کہ شاہ عبدالعزیز کی اولاد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اسی بادشاہ  کی اولاد میں سے ولی عہد نہیں بنایا جاسکتا؟ 
ولی عہد: یہ بات صحیح ہے۔ مثال کے طور پر میں شہزادہ  خالد بن سلمان کو ولی عہد نہیں بناسکتا۔ 
دی اٹلانٹک: خوب۔ اپنی اولاد کو بھی نہیں؟ 
ولی عہد: مجھے بیعہ بورڈ قانون کے مطابق مختلف شاخ سے ولی عہد کا انتخاب کرنا ہوگا۔ 
دی اٹلانٹک: وقت آنے پر یہ فیصلہ آپ کس طرح کریں گے؟ 
ولی عہد: آپ آخری شخص ہوں گے جس کو اس کا علم ہوگا۔ یہ ان ممنوعہ امور میں سے ایک ہے جن کا علم شاہی خاندان کی اولاد، بادشاہ، ولی عہد اور بیعہ بورڈ کے 34 ارکان کے سوا کسی کو نہیں ہوتا۔ اس قسم کے موضوع پر گفتگو سے قبل انہیں اپنی جان کا نذرانہ دینا ہوگا۔ 
دی اٹلانٹک: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ڈرامائی اقدامات کا سہارا لیے بغیر اصلاحات کے لیے آپ کوئی اور طریقہ کار اختیار کرسکتے ہیں۔ رٹز کارلٹن جیسے مسئلے کی طرح۔ کم از کم یہ تصور کہ جو لوگ کھلم کھلا مخالفت نہیں کرسکتے۔ کیا زیادہ آزادانہ اور زیادہ کھلے طریقے سے اس کا موقع دیا جاسکتا ہے؟
ولی عہد: میں اس  مسئلے پر دوبارہ بحث نہیں کرنا چاہتا۔ میرا خیال ہے کہ ہم نے سعودی عرب میں جو کچھ کیا وہی طریقہ ایسا تھا جس کے ذریعے ہم اپنا مطلب پورا کرسکتے تھے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بعض اوقات انسان کو بعض شعبوں میں دباؤ سے کام لینا پڑتا ہے۔ بعض مشکل فیصلوں کے ردعمل بھی ہوتے ہیں۔ ہم نے کم سے کم نقصان پہنچانے والے فیصلے لیے۔ آپ کو بھی ریاست کے مفاد میں ایسے ہی فیصلے لینا ہوں گے۔ 
دی اٹلانٹک: آپ نے اس سے قبل گفتگو کے دوران ہمیں بتایا تھا کہ آپ ملک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے آپ نے سوشل میڈیا کا بھی حوالہ دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آپ ٹوئٹر اور سنیپ چیٹ وغیرہ پر کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟ 
  ولی عہد: ویک اینڈ پر میں سوشل میڈیا  کے چکر میں نہیں پڑتا۔ 2009 سے لے کر  2018 کے اوائل تک ویک اینڈ کی چھٹی کبھی کبھار ہی لیتا تھا۔ اگر دو ماہ کے دوران ویک اینڈ کی چھٹی لیتا تو خود کو بڑا قسمت والا سمجھتا۔ 
میرا وزن بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ صورتحال  مشکل ہوگئی تھی البتہ  2018 سے  ویک اینڈ پر چھٹی کرنے لگا ہوں۔ ایسی صورت میں کہ جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو۔ افراد اچھے ہوں اور حکومت کا کام ٹھیک ٹھاک چل رہا ہو، سکیمیں تیار ہوں۔ ڈیوٹی کے ایام معمول کے مطابق رہے۔ ویک اینڈ کی چھٹی اور دیگر چھٹیوں کے مواقع پر آرام کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر ایسا نہ کروں تو ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاؤں۔ ڈیوٹی کے ایام میں پورا دن کام کرتا ہوں اور ہر دن زیادہ سے زیادہ دس سے بیس منٹ سوشل میڈیا پر لگاتا ہوں۔  
دی اٹلانٹک: لیکن آپ ٹوئٹر پر ہوتے ہیں؟  
ولی عہد: میں ٹوئٹرِ، انسٹا گرام وغیرہ سب پر نظر ڈالتا ہوں۔ میں یہ اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں کہ میری میڈیا ٹیم کو یہ احساس رہے  کہ میں اپنے طور پر بھی سرچ کرتا رہتا ہوں۔ میں ایپ پر نیوز پڑھتا ہوں۔ ایک ایپ میں تمام اخبارات کا خلاصہ شاندار کام ہے۔ بعض سعودی اخبارات اور عالمی اخبارات بھی پڑھتا ہوں۔ لہذا کہہ سکتے ہیں کہ انہیں سوشل میڈیا پر 20 منٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ پر تقریبا نصف گھنٹہ گزارتا ہوں۔ میں عام طور پر یہ کام اپنے گھر والوں کے ساتھ ناشتے کرتے ہوئے کرتا ہوں۔ اس دوران ٹی وی چلتا رہتا ہے اور آئی پیڈ بھی۔  میں فیملی کے ساتھ ہوتا ہوں تو دو یا تین کام ساتھ میں کرتا رہتا ہوں مثلا نیوز ریڈنگ وغیرہ۔  
دی اٹلانٹک: آپ کی دلچسپی کس میں ہوتی ہے؟  
ولی عہد:  جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں فلمیں یا ٹی وی سیریل دیکھتے ہوئے بیرونی دنیا پر نظر رکھنے کی کوشش کرتا ہوں مثال کے طور پر ’ہاؤس آف کارڈز‘ جیسی سیریز میرے لیے مناسب نہیں ہوتا۔  
دی اٹلانٹک: کیا یہ ڈیوٹی پر جانے جیسا ہے؟  
ولی عہد: جب کوئی شخص یہ سیریل دیکھتا ہے تووہ اسے ڈیوٹی کے بارے میں سوچ میں ڈال دیتا ہے۔ اسی وجہ سے مجھ جیسے شخص کے لیے یہ سیریل مناسب نہیں۔ ’فاؤنڈیشن‘ سیریل مناسب ہے۔ یہ نیا سیریل ہے۔ ناقابل یقین اور حیرت انگیز ہے اور ’فیم آف ٹرونز‘ بھی زبردست اور شاندار ہے۔
دی اٹلانٹک: ’گیم آف تھرونز‘ بھی تو کام کی یاد دلانے والا سیریل لگتا ہے؟ 
ولی عہد: یہ سائنس فکشن سے کہیں زیادہ تخیلاتی ہے۔ 
دی اٹلانٹک: کیا گیم آف تھرونز  کا کوئی کردار آپ کو پسند ہے؟ 
ولی عہد: نہیں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ  کہانی میں بہت سے کردار دلچسپ بھی ہیں ۔ یہی پہلو اس سیریل کو پرکشش  بنائے ہوئے ہے۔
لیکن میں جو دیکھنا چاہتا ہوں وہ اس دنیا سے باہرکی چیز ہے، فینٹیسی، سائنس، سپرہیروز، اینیمیشن، مارول یا جاپانی سیریز وغیرہ۔
میں سونے سے قبل ہر دن آدھا گھنٹہ یہ کام انجام دیتا ہوں۔ جہاں تک ویک اینڈ کی چھٹیوں کا تعلق ہے تو اس دوران میں ورزش کرتا ہوں۔ میں ایک دن  کارڈیوایکسرسائز کرتا ہوں۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ۔
 میں یہ  ورزش کے لیے جم جانا پسند نہیں کرتا۔ یہ خوفناک ہے، میں اسے برا سمجھتا ہوں اس کے  بجائے مذکورہ ورزشوں کے  لیے باسکٹ بال کھیلتا ہوں۔
مجھے صرف ایک وجہ سے باسکٹ بال پسند ہے کیونکہ فٹبال سے انسان زخمی ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی تین چار مہینے تک ورزش نہیں کرپاتا لہذا میں ایسا کوئی کھیل نہیں کھیلتا۔
باسکٹ بال محفوظ ہے۔ اس میں انسان خوب حرکت کرتا ہے اورزیادہ وقت متحرک رہ کر گزار سکتا ہے۔ اپنے وقت سے خوب اچھی طرح سے لطف اٹھا سکتا ہے۔ 
دی اٹلانٹک: آپ کیا سنتے ہیں؟ 
ولی عہد: مجھے نئی عربی میوزک پسند نہیں حالانکہ اس میں کئی اچھی ہیں۔ مجھے پرانی میوزک زیادہ پسند ہے۔ میں مملکت کے مختلف علاقوں کی قومی موسیقی سننا پسند کرتا ہوں۔ 
دی اٹلانٹک: ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ آپ مغربی تفریحات اپنے یہاں اس انداز سے لارہے ہیں جسے 15 برس قبل ناممکن مانا جاتا تھا؟
ولی عہد: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ طرز حیات کا حصہ ہے۔ ہم باصلاحیت لوگوں کو یہاں آنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سعودی عرب میں باصلاحیت سعودیوں کو رہنے پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں۔
 سعودی سرمایہ کاروں کو سعودی عرب میں رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کو یہاں آنے کی تحریک دیتے ہیں اور 2030 تک سو ملین سیاحوں کا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
 2016 میں سیاحوں کی تعداد  6 ملین تھی۔ 2019 میں بڑھ کر  17.5 ملین تک پہنچ گئی۔ ایسی حالت میں ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں سارا بنیادی ڈھانچہ فراہم کریں۔ 
پروجیکٹ، ہوٹل اور تفریح گاہیں وغیرہ مہیا کریں۔ رنگا رنگ پروگرام اور تفریحی سرگرمیاں فراہم کریں۔ اس سے قطع نظر کہ  وہ کھیل ہوں یا ثقافتی پروگرام ہوں یا موسیقی  کچھ بھی ہو۔ ذمہ داری بنتی ہے کہ بہتر سے بہتر کو یہاں لایا جائے تاکہ سیاحت،  کھیل اور ثقافت کے اہداف حاصل کیے جاسکیں۔ ہمیں ان سارے اہداف کے لیے کام کرنا ہوگا تاکہ ان سے 2030 میں سعودی عرب کی مجموعی قومی پیداوار  دس تا پندرہ فیصد تک حاصل ہوسکے۔ 
دی اٹلانٹک: کیا مذہبی رہنما میوزک پر اعتراض کررہے ہیں؟ 
ولی عہد: جی ہاں وہ ایسا کرتے ہیں۔ وہ ہم سے بحث کرتے ہیں اور ہم ان سے بحث کرتے ہیں آخر میں فیصلہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
اسلام میں موسیقی کا معاملہ متنازع ہے۔ اسلام میں اس حوالے سے کوئی متفقہ حکم نہیں ہے۔ علما کو اس کا علم ہے۔ اگر مسلمان کسی بات پر متفق ہوں تو ایسی صورت میں ہمارے سامنے پیغمبر اسلام کی یہ ہدایت موجود ہے کہ ’ضرورت کے وقت ممنوعات جائز ہوتے ہیں‘۔ 
دی اٹلانٹک: ضرورتیں ممنوعات کو جائز بنادیتی ہیں؟ 
ولی عہد: مثلا اگر مجھے بے روزگاری کی شرح کم کرنی ہے اور سیاحت سے سعودی عرب میں 10 لاکھ افراد کو روزگار مل  رہا ہے۔ اگر میں بیرون مملکت خرچ کیے جانے والے 30 ارب ڈالر کو باہر جانے سے روکوں اور اس کا بیشتر حصہ سعودی عرب میں خرچ کراؤں تاکہ سعودی پہلے کی طرح باہر نہ جائیں تو مجھے ایسا کرنا ہوگا۔
 ایسا نہ کروں تو سعودی مملکت سے باہر سیاحت کے لیے جائیں گے اور وہاں رقم خرچ کریں گے۔ اسی تناظر میں ہمارے یہاں ایک تیسرا اصولی حکم یہ ہے کہ ’بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹا نقصان اختیار کرلو‘۔

شیئر: