Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ’آر یا پار‘ کا مرحلہ آچکا؟ ماریہ میمن کا کالم

عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو اگلی حکومت ایک دوہری مخلوط حکومت ہو گی (فوٹو: ٹوئٹر)
آر یا پار کا وقت قریب ہے۔ سیاست سے بات اب حکومت تک آ چکی ہے۔ کیا حکومت کا جانا تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سے ہو گا یا پھر حکومت اس بحران کو سروائیو کر جائے گی؟
اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو کیا نقشہ ہوگا؟ اور اگر تحریک ناکام ہوئی تو کیا وزیر اعظم اسی جارحیت سے مخالفوں کا علاج کریں گے جس کا انہوں نے دعویٰ کیا ہے؟ کیا تحریک عدم اعتماد سے اپوزیشن مضبوط گی یا اپنی رہی سہی طاقت بھی کھو دے گی؟ 
ان سوالوں کے جواب اب ہفتوں نہیں دنوں میں ملنے والے ہیں۔ سب سے پہلے اگر حالیہ صورتحال کا  تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا آنا بقول پی ٹی آئی کی پسندیدہ مثال کہ ایک سونامی سے کم نہیں۔
سب سے پہلے پی ٹی آئی کے اتحادی کھل کر سامنے صف آرا نظر آتے ہیں۔ ان سطروں کے تحریر ہونے تک ابھی تک انہوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ حکومت کے ساتھ ہیں یا نہیں۔ اسی تاخیر میں حکومت کی کمزوری عیاں ہے۔
حکومت کے وزیر، ایم این اے اور ایم پی اے کھل کر اپوزیشن سے مل رہے ہیں اور حکومت کے پاس ان کی خوشامد کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ شیخ رشید صاحب نے ایک تلخ بیان دے کے فوراً ہی واپس لیا۔ کوئی وزیر بھی طارق بشیر چیمہ کی کھلی کھلی باتوں کا جواب نہیں دے رہا۔ دوسری ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی سے معاہدہ اب تحریری شکل اختیار کر رہا ہے۔ بلوچستان میں بھی سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے۔ 
اتحادی تو پھر علیحدہ سیاسی شناخت رکھتے ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی ایم پی ایز کے گروپس کی تعدا د اتحادی پارٹیوں سے بھی زیادہ ہے۔ کھلے عام اپوزیشن سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ نواز شریف سے لندن پہنچ کر ملاقات کرنے واے لیڈر تک پر کوئی تنقید نہیں ہو رہی۔ اس صورتحال کو اگر سنگین نہ کہا جائے تو یہ حقائق سے نظر چرانے کے مترادف ہو گا۔  
پی ٹی آئی کے مطابق اپوزیشن کی تحریک نے ناراض ارکان کو بارگیننگ کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ ان کے منصوبے کے مطابق یہ بارگیننگ پنجاب کے سطح پر ہو جائے گی اور اس کے بعد سب کچھ نارمل ہو جائے گا۔
حکومت سپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے اپنے ان اراکین اسمبلی کو روک لے گی جو تحریک کے حق میں ووٹ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ اتحادی بھی اقتدار میں اپنا حصہ بڑھا کر حکومتی کیمپ میں ہی رہیں گے۔ ویسے بھی الیکشن قریب ہیں اس لیے حکومت کو ان کے صرف ووٹ چاہیں باقی وہ اپنی سیاست جیسے بھی کریں۔
اب اگر اپوزیشن کی طرف آئیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اب تک کا سب سے مضبوط چیلنج حکومت کو دیا ہے مگر آگے کا نقشہ ابھی تک واضح نہیں۔
حکومت مخالف تحریک میں سب شوق شوق سے اکٹھے چلتے ہیں مگر حکومت چلانے میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اگر عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو اگلی حکومت ایک دوہری مخلوط حکومت ہو گی۔

آر یا پار جو بھی ہو، سیاسی عدم استحکام برقرار رہے گا (فوٹو: ٹوئٹر)

اس میں اس حکومت کے اتحادی بھی شامل ہوں گے اور پی ڈی ایم کے اپنے اتحادی پہلے سے موجود ہوں گے۔ پھر اس کی مدت کے بارے میں بھی وضاحت ابھی تک نہیں ہوئی۔ کئی قیاس آرائیاں ہیں۔ فوری الیکشن سے لے کر مدت پوری کرنے تک کئی آپشنز ہیں۔ اسی غیریقینی صورتحال کے بارے میں تشویش تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور اس تشویش کا احساس صرف پارلیمنٹ میں ہی نہیں بلکہ ایوان سے باہر بھی ہو گا۔ 
آر یا پار جو بھی ہو، سیاسی عدم استحکام برقرار رہے گا۔ پی ٹی آئی کا اندرونی خلفشار بھی برقرار رہے گا اور ن لیگ کی دہری سیاسی حکمت عملی بھی۔ معاشی اور گورننس کے مسائل اپنی جگہ جن کی کوئی اونر شپ نہیں لینا چاہتا۔ اس لیے مصدقہ خبروں کی عدم موجودگی میں قیاس آرائیاں ہی جاری ہیں مگر اب آر یا پار میں تھوڑے ہی دن ہیں۔

شیئر: