Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سندھ ہاؤس میں موجود پی ٹی آئی ارکان کے خلاف حکومت کیا ایکشن لے سکتی ہے؟

سابق ایڈیشنل سیکریٹری طاہر حنفی کے مطابق اگر الیکشن کمیشن بھی کسی منحرف رکن کو نااہل کر دے تو وہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں جا سکتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سندھ ہاؤس اسلام آباد میں مقیم پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی جانب سے کھل کر پارٹی پالیسی کے خلاف گفتگو کے بعد حکومت کی جانب سے ان کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا گیا ہے۔
جمعرات کو باسط بخاری، نور عالم خان اور نواب شیر وسیر کے ساتھ سندھ ہاؤس سے نجی میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین گروپ کے رکن قومی اسمبلی راجا ریاض نے دعویٰ کیا کہ ان کے ساتھ تحریک انصاف کے دو درجن ارکان ہیں جو تحریک عدم اعتماد میں حکومت کے خلاف ووٹ دیں گے۔‘
ان کے اعلان کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنی ایک ٹویٹ میں منحرف ارکان پر شدید تنقید کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی سے مطالبہ کیا کہ ایسے افراد کو تاعمر ناابل قرار دینے کی کارروائی شروع کریں۔
اس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بھی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’جو منڈیاں لگائی گئی ہیں وہ آئین کے خلاف ہے اور ملک کے مستقبل سے کھیلنے والی بات ہے۔ ہم ان کے خلاف سخت ایکشن لیں گے۔

کیا صرف اعلان کرنے پر منحرف ارکان نااہل ہو سکتے ہیں؟

اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ اگر منحرف ارکان وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دینے کا اعلان کر دیں تو کیا انہیں آئین کی دفعہ 63 اے کے تحت فوری طور پر نااہل کیا جا سکتا ہے؟ اکثر قانونی اور آئینی ماہرین کے خیال میں پارٹی پالسی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران ووٹ دینے سے قبل منحرف اراکین کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی تاہم سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد سمجھتے ہیں کہ کارروائی ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کا کہنا تھا کہ ’آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق اگر کسی جماعت کا پارلیمانی رہنما ایک ڈائریکٹو یعنی ہدایت نامہ جاری کرے کہ پارٹی کے تمام ارکان تحریک عدم اعتماد میں پارٹی کے حق میں ووٹ دیں تو تمام ارکان پر اس کی پابندی لازم ہے۔
’اگر اس ہدایت نامے کے کے بعد کوئی رکن یا ارکان اعلان کر دیں کہ وہ پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دیں گے تو پھر اس صورت میں یہ ہدایت نامے کی خلاف ورزی ہوگی اور پارلیمانی رہنما ایسے ارکان کے خلاف سپیکر کو خط لکھ کر نااہلی کی کارروائی کا آغاز کر سکتے ہیں۔ تاہم اس سے قبل پارلیمانی لیڈر کو ایسے ارکان کو شوکاز نوٹس جاری کرنا ہوگا۔
ان سے پوچھا گیا کہ سپیکر کے پاس معاملہ بھیجنے کے بعد ایسے ارکان کو کیا تحریک عدم اعتماد میں ووٹ دینے کا حق حاصل ہوگا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک الگ معاملہ ہے جس پر وہ بات نہیں کر سکتے۔

جج جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کے مطابق منحرف اراکین کو آئین کی دفعہ 63 اے کے تحت فوری طور پر نااہل کیا جا سکتا ہے۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

اس سوال پر کہ اگر درجنوں کی تعداد میں منحرف اراکین اسمبلی سے استعفیٰ دے دیں تو پھر وزیراعظم کے عہدے کے لیے ووٹنگ میں بنیادی اکثریت 172 سے کم بھی شمار ہو سکتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’بالکل ایسا ممکن ہے کیونکہ قانون کے مطابق اسمبلی کے موجود ارکان کی سادہ اکثریت سے ہی وزیراعظم منتخب ہوتا ہے گویا اگر 42 ارکان مستعفی ہو جائیں تو پھر وزیراعظم کے عہدے کے لیے 300 کے ایوان میں 151 ارکان کی اکثریت حکومت کو درکار ہوگی۔

’ووٹنگ سے پہلے نااہلی ممکن نہیں

تاہم آئینی امور کے ماہر اور سپریم کورٹ کے وکیل سلمان اکرام راجہ جسٹس وجیہہ کی رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ارکان کی طرف سے صرف ووٹ خلاف دینے کا اعلان ان کی نااہلی کے لیے کافی نہیں ہے۔
سلمان اکرام راجہ کے مطابق ’تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران اگر ممبران پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دیں تب ہی ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے اس سے قبل ایسا ممکن نہیں ہے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے بہت واضح ہے کہ ’منحرف ارکان کو سزا جرم سے قبل نہیں دی جا سکتی۔ اور جرم تب ہی صادر ہوگا جب وہ تحریک عدم اعتماد کے دوران وہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیں گے۔
’محض مخالفت کے اعلان سے یہ ممکن نہیں
پارلیمانی امور کے ماہر اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے عشروں تک وابستہ رہنے والے سابق ایڈیشنل سیکریٹری طاہر حنفی کے مطابق ’قوانین واضح ہیں کہ جب تک ارکان پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہ ڈال دیں ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔

راجا ریاض نے دعویٰ کیا ہے کہ ’ان کے ساتھ تحریک انصاف کے دو درجن ارکان ہیں جو تحریک عدم اعتماد میں حکومت کے خلاف ووٹ دیں گے۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

’تاہم ووٹ ڈالنے کے بعد بھی ایک لمبا چوڑا پراسس ہوتا ہے جس کے تحت پارلیمانی رہنما کو شوکاز نوٹس جاری کرنا ہوتے ہیں جس کے بعد سپیکر کو درخواست دی جاتی ہے جو دو روز کے اندر اسے الیکشن کمیشن کو بھیجتا ہے جہاں 30 دن میں اس پر کارروائی کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن بھی کسی منحرف رکن کو نااہل کر دے تو وہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں جا سکتا ہے۔ اس پورے عمل کے دوران رکن اسمبلی ایوان کی کاروائی میں حصہ لے سکتا ہے۔

شیئر: