Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عراقی کردستان میں خواتین پر جان لیوا حملوں میں اضافہ

اربیل میں چند روز قبل 20 سالہ خاتون کی لاش سڑک کے کنارے پائی گئی تھی۔ فوٹو اے پی
شمالی عراق کے علاقے کردستان  میں خواتین کے خلاف خونی تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں آئے دن ایسی خبریں ملتی ہیں کہ ایک عورت کو اس کے شوہر نے زندہ جلا دیا، دوسری کو باپ یا نوعمر بھائی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
اے ایف پی نیوز ایجنسی کے مطابق عراق کا خود مختار علاقہ  جو جنگ زدہ عراق میں استحکام اور رواداری کا خواہاں ہے وہاں پرخواتین کے قتل میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔
خواتین کے خلاف تشدد سے نمٹنے کے لیے کرد جنرل ڈائریکٹوریٹ کی حوا کریم جوامیر کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں پچھلے دو مہینوں میں گذشتہ سال کے مقابلے میں زن کشی میں  تیزی آئی ہے۔
عراقی شہر سلیمانیہ میں مقیم اہلکار نے بتایا ہےکہ 2022 کے پہلے دو مہینوں میں خود مختار عراقی کردستان میں گیارہ خواتین کو قتل کیا گیا جن میں سے زیادہ تر کو گولی مار دی گئی۔
حوا کریم  نے بتایا ہے کہ 2021 میں 45 خواتین کو قتل کیا گیا جب کہ اس سے قبل ایک سال میں یہ تعداد25  کے قریب تھی۔
جمعہ کو طلوع فجر سے پہلے قریبی گاؤں میں ایک15 سالہ لڑکی کو اس کے والد نے چھ گولیاں مار کر شدید زخمی کردیا۔
اس شخص نے پولیس کو بتایا  ہےکہ اس کی بیٹی دو لڑکوں کے ساتھ رات کے وقت باہر گئی جس پر میں نے یہ انتہائی اقدام کیا، گھریلو تشدد کے یونٹ کے مطابق اسے نام نہاد 'غیرت کے نام پر قتل' بھی ریکارڈ کیا جاتا ہے۔

عراق میں خواتین پر تشدد اور جبری شادیوں کی  برسوں سے مذمت جاری ہے۔ فوٹو روئٹرز

اقوام متحدہ  میں  بچوں کے فلاحی  ادارے یونیسیف کے مطابق پورے عراق میں 2020 اور2021 کے درمیان صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات 125 فیصد بڑھے ہیں اور 22 ہزار سے زیادہ ایسے  واقعات ریکارڈ کئے گئے ہیں۔
گزشتہ دسمبر میں بغداد میں ایک 16 سالہ لڑکی پر ایک شخص نے صرف اس وجہ سے تیزاب پھینک دیا تھا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا جسے لڑکی نے مسترد کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ عراق میں خواتین کے خلاف تشدد اور جبری شادیوں کی  برسوں سے مذمت کی جارہی ہے۔
کردستان میں ایک مقامی گروپ پیپلز ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر بہار منظر کا بھی یہ کہنا ہے کہ علاقے میں گذشتہ عرصہ کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہلاک یا زخمی ہونے والی زیادہ تر خواتین خاندان کے ہی کسی فرد کا نشانہ بنتی ہیں۔

گذشتہ برسوں میں یہاں  صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات 125 فیصد بڑھے ہیں۔ فوٹو عرب نیوز

کردستان کے دارالحکومت اربیل میں خواتین کے عالمی دن 8 مارچ سے چند روز قبل 20 سالہ خاتون کی لاش سڑک کے کنارے پائی گئی تھی۔
ماریہ سمیع کے نام سے شناخت ہونے والی مقتولہ حقوق نسواں کی تقاریر کے لیے سوشل نیٹ ورکس پر جانی جاتی تھیں۔
کرکوک پولیس نے اگلے ہی دن  اس کے بھائی کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا جس پر اپنی بہن کے قتل کا الزام تھا۔
بعدازاں مقتولہ کے بھائی نے کرد ٹیلی ویژن چینل کو فون کرتے ہوئے یہ جواز پیش کیا کہ اس کی بہن خاندان والوں کی بات ماننے سے انکار کرتی تھی۔
 
 

شیئر: