Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی فوج کی حمایت میں قرارداد 

سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق ’مسلم لیگ ن نے ہمیشہ ایسی ہی سیاست کی ہے جیسی کہ وہ اب کر رہی ہے‘ (فائل فوٹو: پی ایم آفس)
پاکستان کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن نے پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کروائی ہے جس میں سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف مہم چلانے کی مذمت کی گئی ہے۔  
پنجاب اسمبلی میں یہ قرارداد مسلم لیگ ن کی رکن اسمبلی سعدیہ تیمور کی جانب سے جمع کرروائی گئی ہے۔ قرار داد کہا گیا ہے کہ ’تحریک انصاف کی خاتون ایم این اے اور پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم فوج کے خلاف مہم چلا رہی ہے جس کی مذمت کی جاتی ہے۔‘  
اس قرار داد میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ حکمراں جماعت اداروں کے سربراہان کے خلاف کردارکشی کی مہم چلا رہی ہے۔ ’حکومت اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کررہی ہے۔ فوج مخالف مہم انڈیا کو خوش کرنے کے لیے چلائی جارہی ہے۔ وزیراعظم بھی مودی کی خارجہ پالیسی کی تعریفیں کررہے ہیں۔‘  
قرارداد کے متن کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ ایف آئی اے فوج کے خلاف چلائی جانے والی اس مہم میں ملوث افراد کو گرفتار کرے جبکہ ’یہ ایوان افواج پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ ساڑھے تین برسوں میں پہلی مرتبہ مسلم لیگ ن کے طرف سے اس طرح کی کوئی قرارداد کسی بھی اسمبلی میں پیش کی گئی ہے۔  
سیاسی مبصرین اس قرارداد کو اس لیے بھی اہم سمجھ رہے ہیں کہ پہلے اس طرح کی قراردادیں اسمبلی فلور پر تحریک انصاف لےکر آتی رہی ہے۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اختیار کیا جس کو بظاہر سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔  
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے بیانیے میں فوج کی جگہ ہمیشہ رکھتی ہیں لیکن اس کو استعمال کب کرنا ہے یہ صورت حال پر منحصر ہوتا ہے۔ تحریک انصاف نے بالکل ایسی ہی ایک قرارداد مارچ 2014 میں پنجاب اسمبلی میں جمع کروائی تھی۔

قرارداد میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ حکمراں جماعت اداروں کے سربراہان کے خلاف مہم چلا رہی ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)

ایک تو تحریک انصاف اس وقت اپوزیشن میں تھی دوسرا وہ قرارداد ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف اور فوج کے حق میں تھی۔  
اسی طرح مسلم لیگ ق نے بھی اس سے ملتی جلتی قراردادیں پرویز مشرف کے دور میں اسمبلیوں سے پاس کروائی تھیں۔ پارلیمانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ’پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو ابھی کسی طور پر رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔‘
’مسلم لیگ ن نے بھی ہمیشہ ایسی ہی سیاست کی ہے جیسی کہ وہ اب کر رہی ہے۔ میرے خیال میں تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ یہ تو ایک قرارداد ہے تحریک انصاف نے تو ایسی قانون سازی کی ہے جو اس طرح کی کئی قراردادوں سے بھاری ہے۔‘
ان کے مطابق ’معروضی حالات ان سیاسی چالوں سے ہمیشہ مختلف ہی رہے ہیں۔ اب تحریک انصاف کی گرفت کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے تو جو کوئی بھی سیاسی جماعت اس کی جگہ آئے گی وہ اپنی سیاسی پالیسیوں بشمول نظریات کے ان سے مختلف نہیں ہوگی۔‘  

تجزیہ کاروں کے مطابق ’پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق بھی فوج کے حق میں قراردادیں پیش کرتی رہی ہیں‘ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کی استاد ڈاکٹر عنبرین جاوید کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں کسی بھی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی۔‘
’سیاسی جماعتوں کو ایک مخصوص ماحول دستیاب ہوتا ہے انہوں نے اس کے اندر ہی رہنا ہوتا ہے۔ ہاں موجودہ سیاسی تاریخ میں کچھ بڑے واقعات ہوئے ہیں جس میں سیاسی جماعتوں نے اپنی سپیس بڑھائی ہے۔‘
 ڈاکٹر عنبرین جاوید کے مطابق ’مکمل سیاسی جگہ لینے میں ابھی وقت لگے گا اور میں اس میں کسی ایک سیاسی جماعت کے حق یا مخالف بات نہیں کر رہی۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ سب ایک طرح کام کر رہی ہیں کیونکہ سیاست کے لیے جو سپیس دستیاب ہے وہ اتنی ہی ہے۔ ‘   

شیئر: