Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فیصلہ کریں گے کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف ہو یا پنڈی کی طرف‘

پی ڈی ایم کا اجلاس مولانا فضل الرحمان کی زیرصدارت رائے ونڈ لاہور میں ہوا (فوٹو: مسلم لیگ ن)
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم اب یہ فیصلہ کرے گی کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کرنا ہے یا راولپنڈی کی طرف۔
’ہم نے صرف ایک مہرے کی طرف رُخ نہیں موڑنا بلکہ اس کے پشتی بانوں کی طرف بھی تحریک کو متوجہ کرنا ہے اور عوام پر واضح کرنا ہے کہ تمام خرابیوں کی جڑ کون ہے اور کیوں ہے۔‘
جمعہ کی رات لاہور میں پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’اب ہماری تنقید کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہوگا۔ اب وہ فیصلہ کرے کہ وہ پیچھے ہٹے گی اور اپنی آئینی ذمہ داریوں کی جانب واپس جائے گی یا سیاست میں پنجے گاڑے رکھے گی۔‘
 
’اصلاح احوال کے لیے ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اس کے اصل کام کی جانب متوجہ کیا جائے۔ ہم میڈیا کو سرپرائز دینے کے لئے بہت سی چیزیں چھپا کر رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر رہے ہیں، فوج ہماری فوج ہے، ہم اسے اپنی فوج سمجھتے ہیں، ہم تمام جرنیلوں کا احترام کرتے ہیں، یہ ہماری دفاعی قوت ہے۔‘
ایک سوال پر مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم ضمنی انتخابات میں حصہ لے گی، تاہم سینیٹ الیکشنز کے حوالے سے فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔
 
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’ہم نے حکومت کو 31 جنوری تک مستعفی ہونے کا وقت دیا تھا۔ ہم پھر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ حکومت کے پاس صرف ایک ماہ کا وقت ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ 31 جنوری کے بعد پی ڈی ایم لانگ مارچ کی تاریخ اور آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے ارکان کے استعفے اپنی اپنی قیادت کے پاس پہنچ چکے ہیں اور ہم نے ایک ہدف حاصل کر لیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے کوئی تحفظات نہیں ہیں، انہوں نے اجلاس میں صرف اپنی تجاویز پیش کیں جو کہ پی ڈی ایم کا حصہ ہونے کی حیثیت سے ان کا حق ہے۔
’نواز شریف کی واپسی کو استعفوں سے مشروط کرنے کے حوالے سے سب باتیں محض قیاس آرائیاں ہیں۔‘

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 31 جنوری کے بعد پی ڈی ایم لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرے گی (فوٹو: مسلم لیگ ن)

’آئے روز پی ڈی ایم میں اختلافات کی خبریں چلوائی جاتی ہیں۔ پی ڈی ایم میں اختلافات کی خبریں دم توڑ چکی ہیں، پی ڈی ایم اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔‘
پی ڈی ایم کے سربراہ نے اعلان کیا کہ اپوزیشن 19 جنوری کو الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ کرے گی اور نیب دفاتر کے سامنے بھی مظاہرے کیے جائیں گے۔
’ہم سمجھتے ہیں کہ نیب کا ادارہ صرف حزب اختلاف کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ آج ملک میں احتساب نہیں ہو رہا بلکہ انتقام لیا جا رہا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ خواجہ آصف کی گرفتاری کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ہم آنے والے دنوں میں سخت فیصلے کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما محمد علی درانی بغیر پروگرام کے ان سے ملاقات کے لیے آئے تھے، انہوں نے نیشنل ڈائیلاگ کا فلسفہ بیان کیا۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے تمام ارکان کے استعفے ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں (فوٹو: مسلم لیگ ن)

اس موقع پر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ پارٹی کے تمام ارکان کے استعفے ہمارے پاس آچکے ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ پارٹی استعفیٰ مانگے اور کوئی نہ دے، ایسی خواہش رکھنے والوں کو مایوسی ہوگی۔
اس سے قبل رائے ونڈ لاہور میں مولانا فضل الرحمان کی زیرصدارت پی ڈی ایم کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے سربراہوں اور مرکزی رہنماؤں نے شرکت کی۔
اجلاس میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز، سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف اور فرحت اللہ بابر، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ شریک تھے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امیر حیدر ہوتی اور میاں افتخار حسین، بی این پی (مینگل) کے رہنما جہانزیب جمال دینی، جمعیت اہل حدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر، نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک اور دیگر قائدین شریک تھے۔

’اپوزیشن 19 جنوری کو الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ کرے گی‘ (فوٹو: فیس بُک)

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور شیری رحمان نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔

پی ڈی ایم کی بریفنگ پر حکومت کا ردِعمل

وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی شہباز گِل نے پی ڈی ایم قائدین کی میڈیا بریفنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی نیوز کانفرنس میں کام کی ایک بات سامنے نہیں آسکی۔
’پیپلز پارٹی کی طرف سے سُرخ جھنڈی دکھائی جانے کے بعد مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ عوام کو مزید کیسے بے وقوف بنائیں۔ اب یہ ضمنی انتخابات میں بھی حصہ لیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تو مسئلہ حل ہو گیا۔ آپ استعفے دیں ہم ضمنی الیکشنز کروا دیتے ہیں۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ان کی باتوں اور چہروں سے یہ ہی لگ رہا تھا کہ اس اجلاس کے کوئی نتائج نکلے ہیں نہ ہی انہیں سپورٹ ملی ہے۔
’معاملے کی اصل فریق پیپلز پارٹی ہے، اس کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ پیپلز پارٹی کے پاس ایک صوبے کی حکومت ہے، وہ استعفے نہیں دینا چاہتی۔‘
سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم ہارے ہوئے افراد کا اکٹھ ہے اور اس کا بیانیہ دفن ہو چکا ہے۔

شیئر: