Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور میں چھ بیٹوں کی ’بےسہارا‘ ماں، ’خرچہ نہ دیا تو جیل بھیج دیں گے‘

عدالت نے معذور بیٹے کے علاوہ پانچ بیٹوں کو ماہانہ تین ہزار روپے والدین کو دینے کا حکم دیا (فوٹو: پی پی آئی)
’والدین کو بے سہارا چھوڑنے پرایک مہینے کے لیے جیل بھیج دیں گے، رمضان کا مہینہ جیل میں گزارنے اور اپنے بچوں سے دور رہنے پر آپ کو کچھ احساس ہوگا۔‘
یہ ریمارکس پشاور ہائی کورٹ نے چھ بیٹوں کی ’بےسہارا‘ ماں کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران دیے ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ میں ایک معمر خاتون نثار بی بی نے اپنی اور اپنے شوہر کی کفالت کے لیے درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے یہ موقف اپنایا تھا کہ چھ بیٹوں کے باوجود وہ بے آسرا ہیں، ایک بیٹا معذور ہے جو ان کے ساتھ رہتا ہے لیکن باقی کوئی بھی بیٹا اپنے والدین کو ساتھ رکھنے پر رضامند نہیں۔ 
درخواست کی سماعت کے دوران پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس روح الامین خان نے ریمارکس دیے کہ ’والدین ایک کمرے میں آٹھ بچوں کو پال سکتے ہیں لیکن وہی اولاد بوڑھے ماں باپ کو نہیں سنبھال سکتی، بیوی کا بھی حق ہے، رشتے داروں اور پڑوسیوں کا بھی لیکن والدین کا حق سب سے پہلے آتا ہے۔‘
چار بیٹوں کو بغیر ہتھکڑی پیش کرنے پر عدالت نے ایس ایچ او کی سرزنش کی۔
جسٹس روح الامین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے، بغیر ہتھکڑیوں کے کیوں پیش کیا، ہتھکڑیوں میں ان کو لاتے تو ان کو کچھ احساس ہوتا۔‘ 
عدالت نے مذکورہ خاتون کے بیٹوں سے استفسار کیا کہ ’آپ کی شادیاں کس نے کرائیں؟ کیا خود شادی کی یا والدین نے شادی کا خرچہ برداشت کیا؟‘ جس پر  انہوں نے جواب دیا کہ والدین نے اپنی ساری جمع پونجی اور ذاتی مکان بیچ کر ان شادیاں کرائی تھیں۔
عدالت نے چاروں بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کے والدین عدالت میں کھڑے ہیں اور شکایت کر رہے ہیں کہ آپ لوگوں نے انہیں بڑھاپے میں بے سہارا چھوڑا ہے، آپ لوگوں کو کچھ احساس نہیں ہو رہا کیا؟‘ 
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ ’آپ لوگوں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے اور ٹوپیاں بھی پہنی ہیں یہ اچھی بات ہے لیکن جب تک آپ والدین کی خدمت نہیں کریں گے اللہ آپ کو نہیں بخشے گا۔‘
کمرہ عدالت میں موجود صحافی عثمان دانش نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’دوران سماعت عدالت نے جب بزرگ خاتون نثار بی بی سے پوچھا کہ کیا آپ اپنے بچوں سے خوش ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ماں تو ماں ہوتی ہے اگر بچے انہیں ماریں بھی تو ماں خفا نہیں ہوتی۔ یہ باتیں کرتے ہوئی نثار بی بی کی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔‘
’چھ بیٹوں کی ’بے سہارا‘ ماں نے آنسو پونچھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ان کے چھ بیٹے ہیں جن میں سے چار عدالت میں موجود ہیں۔ ایک بیرون ملک ہے لیکن اس کے باوجود وہ اکیلے گھر میں رہ رہے ہیں جبکہ ایک معذور بیٹا جس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں، ان کے ساتھ رہتا ہے۔‘

نثار بی بی نے عدالت کو بتایا ’ایک کمرے کے گھر میں، میں نے چھ بچوں کو پالا تھا لیکن اب میرا کوئی سہارا نہیں ہے۔‘ (فوٹو: عثمان دانش)

انہوں نے بتایا کہ گھر کا ماہانہ کرایہ چھ ہزار روپے ہے، اس کے علاوہ دو ہزار بجلی کا بل اور دیگر ضروریات بھی ہیں لیکن ان کے بچوں نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔ ’میرے شوہر بیمار ہیں، کل بھی ہسپتال لے کر گئی تھی لیکن علاج کے پیسے نہ ہونے پر واپس گھر لے آئی جبکہ خود بھی بیمار ہوں۔‘
نثار بی بی کے بقول ’ایک کمرے کے گھر میں، میں نے چھ بچوں کو پالا تھا لیکن اب میرا کوئی سہارا نہیں ہے۔‘ جسٹس روح الامین نے ان کے بیٹوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ’کتنی مشکل سے ان ماں باپ نے آپ سب کو بڑا کیا ہوگا، آپ لوگ ان کا خیال نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا؟ ابھی اس کیس سے پہلے بھی ایک کیس پر سماعت ہو رہی تھی جس میں چار بیٹوں نے والد پر جان قربان کی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم آپ کو ایک مہینے کے لیے ڈی آئی خان جیل بھیج دیں گے، رمضان کا مہینہ جیل میں گزارنے اور بچوں کو گھر میں چھوڑنے پر آپ کو کچھ احساس ہوگا۔‘
دوران سماعت خاتون کے بڑے بیٹے نے والدین کو گھر لے جانے کے لیے رضامندی ظاہر کی تو عدالت نے کہا کہ ’آپ لے جائیں انہیں، خوب خدمت کریں اور ان کی دعائیں لیں۔ باقی بیٹے انہیں ہر ماہ معاوضہ ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔‘
عدالت نے معذور بیٹے کے علاوہ دیگر پانچ بیٹوں کو ہرماہ 26 سے 28 تاریخ تک تین، تین ہزار روپے والدین کو دینے کا حکم دیا جبکہ ایس ایچ او کو ان سے تین تین ہزار روپے وصول کر کے ان کے والدین تک پہنچانے کی ہدایت کی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ایس ایچ او کو مخاطف کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کا جو بیٹا بیرون ملک ہے ،ان کے گھر کا پتہ معلوم کریں اور ان کی بیوی کو اطلاع دیں کہ اپنے شوہر کو آگاہ کریں کہ ہر مہینے تین ہزار روپے والدین کو بھیجیں۔‘
عدالت نے واضح کیا کہ ’اگر پیسے نہیں بھیجتے تو پھر ہم ان کی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم دیں گے۔‘
نثار بی بی اور ان کے شوہر کی جانب سے افشاں بشیر ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئیں۔ اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’اس کیس کی تقریبا ایک مہینے میں تین سماعت ہوئی ہیں، بیٹوں کی عدالت میں پیشی کے لیے وارنٹ جاری کیے گئے تھے جس کے بعد چاروں بیٹے عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ایک بیٹا بیرون ملک ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکا۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’سماعت کے دوران عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ( اے اے جی) مجاہد علی خان سے استفسار کیا کہ کیا حکومت کا ایسا کوئی پروگرام نہیں جس سے ایسے لوگوں کی امداد ہوسکے؟‘
جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے آگاہ کیا کہ ’احساس پروگرام اور بیت المال سے ایسے افراد کی مدد ہوسکتی ہے۔‘
جسٹس روح الامین نے کہا کہ ’احساس پروگرام تو ہے لیکن لوگوں میں احساس ختم ہو چکا ہے۔‘
عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو بزرگ والدین کے صحت کارڈ اور احساس پروگرام سے مدد فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’والدین کے تحفظ کے لیے آپ لوگوں نے جو آرڈیننس بنایا تھا کیا وہ صرف دکھانے کے لیے تھا؟ صوبائی حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے۔‘
جس پر انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال ستمبر میں صدر پاکستان نے تحفظ والدین آرڈینینس 2021 جاری کیا تھا جس کے تحت بچے والدین کو اپنے گھروں سے زبردستی نہیں نکال سکتے، چاہے وہ اپنے گھر میں رہ رہے ہوں یا کرائے کے مکان میں۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل مجاہد علی خان نے مزید بتایا کہ ’اس آرڈیننس کے تحت والدین کو گھروں سے بے دخل کرنے والے بچوں کو ایک سال تک قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔‘

شیئر: