Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انگلینڈ میں گھر کی چھت پر دیوہیکل شارک، معاملہ کیا ہے؟

بل ہینے نے جنگوں اور بموں کے خلاف احتجاج کے طور پر گھر پر مجسمہ لگوایا تھا (فوٹو: اے پی)
25 فٹ لمبی شارک پانی میں ہو یا باہر، ہے بہرحال خطرے اور خوف کی علامت تاہم یہ اگر کسی گھر کی چھت کو پھاڑتے ہوئے اندر جانے کی کوشش کرتی دکھائی دے ہو یقیناً یہ منظر رونگٹے کھڑے کر سکتا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق انگلینڈ کے نواحی علاقے آکسفرڈ میں ایک ایسا گھر موجود ہے جس کی چھت پر بہت بڑی شارک دکھائی دیتی ہے جس کے جبڑے چھت میں پیوست ہیں جبکہ باقی دھڑ اور دم باہر اٹھی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
یہ دراصل شارک کا 25 فٹ لمبا مجسمہ ہے جس کو گھر کے مالک کے ایک خاص پیغام کے لیے نصب کیا تھا۔
اس عجیب عمارت کو اب آکسفرڈ سٹی کونسل کی جانب سے ورثہ قرار دے دیا گیا ہے۔
اس گھر کے رہائشی ہینسن ہینے شارک کے اس مجسمے کو بہت پسند کرتے ہیں جو ان کے والد نے 1986 میں جنگ اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف احتجاج کے طور پر نصب کروایا تھا۔ مجسمہ آج کے حالات سے بھی متعلقہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس وقت بھی جنگ جاری ہے اور یوکرین پر بم گرائے جا رہے ہیں جبکہ روسی صدر نے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
ہینسن ہینے کہتے ہیں کہ اگرچہ کونسل نے اس گھر کے لیے اہم قدم اٹھایا ہے کہ اس کو تاریخی ورثے کی حیثیت دے دی گئی تاہم ان کے والد کے پیغام کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
بل ہینے نے اپنے گھر کی چھت پر شارک کا دیوہیل مجسمہ مقامی حکام سے منظوری لیے بغیر لگوایا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان کے پاس یہ اختیار نہیں کہ فیصلہ کریں کہ عوام کو کون سا آرٹ دیکھنا چاہیے اور کون سا نہیں۔
مجسمے کی تنصیب کے بعد سرکاری حکام برسوں اس کو وہاں سے ہٹانے کے لیے کوششیں کرتے رہے۔
بل ہینے کے بیٹے ہینسن ہینے کوانٹم کیمسٹ ہیں،  انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چھت کو چیرتی ہوئی دیوہیل شارک کو دیکھ کر لوگوں کو ان لوگوں کا احساس ہوتا تھا جن کے گھروں کی چھتیں بموں سے پھٹی ہیں۔
ہینے اور ان کے دوست جان بکلے نے فائبر گلاس سے شارک کا مسجمہ بنایا اور نو اگست چھت پر لگایا، اسی روز ہی امریکہ نے ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا تھا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’یہ ماڈل اس لیے بھی اہم ہے کہ آج کل یوکرین اور روس کے درمیان لڑائی جاری ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس شارک کو دیکھ کر جو خیال آتا ہے ویسا ہی آج کل لوگ یوکرین میں محسوس کر رہے ہیں۔‘

شیئر: