Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جدید ٹیکنالوجی اور بچے‘ الظہران میں مفید مباحثے کا آغاز

دو روزہ تقریب کا اہتمام شاہ عبدالعزیز سینٹر برائے عالمی ثقافت کی جانب سے کیا گیا ہے (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب کے شہر الظہران میں جدید ٹیکنالوجی کے صحت مند استعمال کے حوالے سے تقریب کا آغاز ہو گیا ہے، جس میں جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں والدین اور بچوں کے درمیان تعلق سمیت کئی دیگر اہم امور پر بحث کی جا رہی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق دو روزہ تقریب کا اہتمام شاہ عبدالعزیز سینٹر برائے عالمی ثقافت، جس کو إثراء کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، کی جانب سے کیا گیا ہے۔
شاہ عبدالعزیز سینٹر برائے عالمی ثقافت کے ڈائریکٹر عبداللہ الرشید نے افتتاح کے بعد بتایا کہ کیسے انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کو زندگی کے پہلے چار سال تک ڈیجیٹل ڈیوائسز سے دور رکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب 2020 کے آغاز میں کورونا وبا پھیلی تو وہ پہلا موقع تھا کہ انہیں اپنے بیٹے کو سکرین سے متعارف کرانا پڑا کیونکہ وہ اور ان کی اہلیہ مصروفیات کی وجہ سے بیٹے کو زیادہ وقت نہیں دے پا رہے تھے۔
اس کے بعد بیٹے کا ڈیجیٹل چیزوں کی طرف رجحان تیزی بڑھتا گیا اور گھنٹوں پر محیط ہو گیا اور وہ خوش مزاج بچہ جو بہت زیادہ باتیں کرتا تھا۔ وہ اتنا بدلا کہ اس کو سونے تک میں مشکلات پیش آنے لگیں۔
سعودی عرب کی آبادی میں تقریباً 15 فیصد لوگوں کی عمر 25 سال سے کم ہے۔
بہت سے بچے ڈیجیٹل دور کے زیرسایہ بڑے ہو رہے ہیں اور واالدین ان کو آن لائن دنیا کے خطرات سے بچانے کے لیے بچوں اور ڈیجیٹل آلات میں توازن قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔

تقریب میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے جڑے مختلف ایشوز پر روشنی ڈالی گئی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

سٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور کامن سینس میڈیا کے سی ای او جیمز پیئرسن سٹیئر نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’میرے خیال میں یہ زبردست آئیڈیا ہے، اس کے انتخاب سے شاہ عبدالعزیز سینٹر برائے عالمی ثقافت کی دور اندیشی ظاہر ہوتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شاہ عبدالعزیز سینٹر برائے عالمی ثقافت کو بجا طور پر اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے انتہائی اہم نکات کو سامنے رکھا اور اس پر بات کی گئی۔ کون سوچ سکتا تھا کہ سعودی عرب ایسے ایونٹ کی میزبانی کر سکتا ہے۔‘
سٹیئر نے پینل کے مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے کئی اہم نکات پر تبادلہ خیال کیا ان کے ساتھ بحث میں متحدہ عرب امارات سے دو مہمانوں نے بھی حصہ لیا۔
مو گادیٹ گوگل کے سابق بزنس چیف ہیں جبکہ سنیل جان پی آر ایجنسی ایس ڈی اے، اے بی ڈبلیو کے صدر ہیں۔

سعودی عرب کی آبادی میں تقریباً 15 فیصد افراد کی عمر 25 سال سے کم ہے (فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے اس سوال پر بحث کی کہ کیا آن لائن زیادہ وقت گزارنے کے ذمہ دار صارفین ہیں یا پھر یہ ذمہ داری پلیٹ فارمز کے ڈویلپرز پر عائد ہوتی ہے؟
اس موقع پر گاڈیٹ نے کہا کہ یہ ایک قسم کی خام خیالی ہے کہ یہ امید رکھی جائے کہ پلیٹ فارمز اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی قدم اٹھائیں گے، جنہوں نے صارفین کو کاروباری نقطہ نگاہ سے ایسے استعمال کی طرف راغب کیا ہے۔
تقریب میں ایک اور سیشن بھی تھا جس کا عنوان تھا ’ٹیکنالوجی کی نفسیات‘
اس میں بھی ٹیکنالوجی اور انسانی نفسیات کے حوالے سے مختلف نکات پر بات چیت کی گئی۔

شیئر: