Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کا ساتھ چھوڑ جانے والے دوست اب کہاں ہیں؟  

جہانگیر ترین کا شمار عمران خان قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا (فائل فوٹو: پی ٹٰی آئی میڈیا سیل)
وزیراعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد دو سال قبل ہی بن چکا تھا تاہم اب اس اتحاد کا ساتھ ایسے لوگ بھی دے رہے ہیں جو وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔  
وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو مختلف وجوہات کے باعث ان کے قریبی ساتھ ان سے دور ہوتے گئے، ان میں سے کچھ کو جب وزیراعظم نے حکومت سے علیحدہ کیا تو وہ اُن کے خلاف سرگرم ہو گئے جبکہ کچھ اب بھی عمران خان کے ساتھ موجود ہیں۔  
جہانگیر خان ترین 
جہانگیر ترین کا شمار عمران خان کے اُن قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا جو ان کی ذاتی رہائش گاہ بنی گالہ تک اثرورسوخ رکھتے تھے۔ لودھراں سے تعلق رکھنے والے جہانگیر ترین 2011 میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور رفتہ رفتہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔
سنہ 2013 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی پوری انتخابی مہم کی ذمہ داریاں جہانگیر ترین اور اسد عمر کے سپرد تھیں۔ 
سنہ 2014 میں تحریک انصاف کے 126 دن کے دھرنے میں بھی جہانگیر ترین کا ایک بہت بڑا کردار رہا ہے۔  
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں جہانگیر ترین سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کی وجہ سے عام انتخابات میں حصہ تو نہ لے سکے لیکن حکومت سازی کے مرحلے میں جہانگیر ترین نے اہم کردار ادا کیا۔
جہانگیر ترین نے پنجاب سے آزاد حیثیت سے جیتنے والے امیدواروں کو تحریک انصاف میں شامل کروا کر پنجاب اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت قائم کروائی۔  
حکومت بننے کے بعد وزیراعظم نے مختلف ٹاسک فورسز قائم کیں جس میں جہانگیر ترین کو زراعت کے شعبے کی ٹاسک فورس کا کنوینر مقرر کیا گیا، تاہم حکومت بننے کے بعد ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور جس کی وزیراعظم نے ایف آئی اے سے انکوائری کروائی تو جہانگیر ترین کی شوگر ملز چینی بحران کی ذمہ دار قرار پائیں۔

سنہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد علیم خان وزیراعلٰی پنجاب کے عہدے کے ایک مضبوط امیدوار تھے (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

اس کے بعد عمران خان نے جہانگیر ترین سے پارٹی عہدہ واپس لینے کے بعد حکومت سے ان کو علیحدہ کردیا اور ان کے خلاف ایف آئی اے میں کیسز درج ہوگئے۔  
اس کے بعد جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان دوریاں بڑھتی گئیں اور انہوں نے پارٹی میں اپنا ایک علیحدہ گروپ بھی تشکیل دے دیا۔
اس وقت جہانگیر ترین لندن میں موجود ہیں اور مسلم لیگ ن کے اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ جہانگیر ترین کا گروپ پنجاب اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد کے ساتھ کھڑا ہے۔  
عون چوہدری 
عوان چوہدری عمران خان کے پرسنل سیکریٹری کے طور پر 2014 کے دھرنوں کے دوران سامنے آئے۔ وہ عمران خان کے ذاتی سیکریٹری ہونے کے باعث بنی گالہ کے بھی تمام معاملات دیکھتے اور عمران خان کے تمام سیاہ و سفید سے واقف تھے۔  
سنہ 2018 میں وزارت عظمٰی کا حلف اٹھانے سے قبل ہی وزیراعظم عمران خان نے عون چوہدری کو پنجاب بھیجتے ہوئے وزیراعلٰی کا معان خصوصی مقرر کردیا تاہم جہانگیر ترین کے ساتھ عمران خان کی بڑھتی دوریوں کی وجہ سے عون چوہدری بھی عمران خان کے خلاف ہوگئے اور اب جہانگیر ترین گروپ کا حصہ ہیں۔ 

عوان چوہدری عمران خان کے پرسنل سیکریٹری کے طور پر 2014 کے دھرنوں کے دوران سامنے آئے تھے (فائل فوٹو: پی ٹی آئی میڈیا سیل)

علیم خان
عبد العلیم خان کا تعلق پراپرٹی کے کاروبار سے ہے تاہم سنہ 2002 سے وہ سیاست سے بھی منسلک ہیں۔ 2011 میں عبدالعلیم خان نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور بعد ازاں پی ٹی آئی پنجاب کے صدر بن گئے۔  
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں علیم خان صوبائی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہو کر آئے تو وہ وزیراعلٰی پنجاب کے عہدے کے ایک مضبوط امیدوار تھے تاہم نیب کیسز ہونے کے باعث عبد العلیم خان کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔  
پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو عبدالعلیم خان کو سینیئر وزیر کا قلم دان دیا گیا، تاہم ان کے خلاف تفتیش بدستور جاری رہی اور حکومت بننے کے چند ماہ بعد ہی نیب نے انہیں گرفتار کرلیا۔ اس کے بعد عبد العلیم خان نے اپنی وزارت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔  
علیم خان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس گرفتاری سے پہلے ہی علیم خان اور عمران خان کے درمیان دوریاں پیدا ہوچکی تھیں۔ عمران خان کو علیم خان کے خلاف مبینہ طور پر رپورٹس پیش کی گئی تھیں جس کی وجہ سے عمران خان نے علیم خان کو کوئی اہم عہدہ نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔  
اس وقت علیم خان پنجاب اسمبلی میں علیحدہ گروپ بناچکے ہیں جبکہ کچھ روز قبل وہ لندن میں چند سیاسی ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔ علیم خان گروپ نے پنجاب کی وزارت اعلٰی کے لیے حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ 

رنگ روڈ منصوبے میں مبینہ طور پر نام سامنے آنے کے بعد زلفی بخاری مستعفی ہوگئے تھے (فائل فوٹو: پی ٹی آئی میڈیا سیل)

زلفی بخاری 
عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد ان کی وفاقی کابینہ میں سے اگر کسی رکن کی رسائی بنی گالہ تک تھی تو وہ زلفی بخاری تھے۔
زلفی بخاری پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں اور وزیراعظم کے سب سے زیادہ قریبی سمجھے جاتے تھے۔  
عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو زلفی بخاری کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئی اور انہیں اپنا معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز مقرر کیا۔  
راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں بے ضابطگیاں سامنے آئیں تو اس میں مبینہ طور پر زلفی بخاری کا نام بھی سامنے آیا۔ اس پر زلفی بخاری اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ان کی قربتیں بھی کم ہونے لگی۔  
بنی گالہ میں موجود مختلف حلقوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ زلفی بخاری کابینہ کے واحد رکن تھے جو بنی گالہ کسی بھی وقت عمران خان سے ملاقات کے لیے چلے جاتے تھے۔
عمران خان بھی ان کے ساتھ ہر معاملے میں مشورہ کرتے تاہم رنگ روڈ سکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد زلفی بخاری کا تعلق متاثر ضرور ہوا ہے لیکن وہ اب بھی عمران خان کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اور ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ 
زلفی بخاری نے 27 مارچ کو اٹک سے ایک ریلی کی صورت میں اسلام آباد کے جلسے میں شرکت کی تھی۔ حکومت سے علیحدہ ہونے کے باجود عمران خان کے ساتھ ان کی دوستی کا رشتہ برقرار ہے۔  

شیئر: