Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک عدم اعتماد پر سپیکر کی رولنگ: قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

اتوار کی صبح ڈپٹی سپیکر نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کردی تھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں اتوار کو رمضان کا پہلا دن تھا لیکن چھٹی کے باوجود وفاقی دارالحکومت میں صبح سے چہل پہل تھی کیونکہ آج وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے مقدر کا فیصلہ ہونا تھا۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں جمع کرائی جانے والی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اور اس کے فیصلے کا پوری قوم کو انتظار تھا۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کو وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے کم سے کم 172 ووٹوں کی ضرورت تھی اور اسمبلی میں بیٹھے ان کے اراکین کی تعداد 176 کے قریب تھی۔
تقریباً 12 بجے جب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو سب کو لگ رہا تھا کہ آج وزیراعظم عمران خان کی وزارت اعظمیٰ کا آخری دن ہے۔ لیکن آگے جو ہوا وہ کسی کے لیے سرپرائز سے کم نہ تھا۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری، جنہیں دو روز قبل وزارت قانون کا اضافی قلمدان کا دیا گیا تھا، نے اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور آرٹیکل 5 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بیرونی سازش کا حصہ ہے۔
ان کی تقریر کے بعد ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ وہ وزیر قانون و اطلاعات کی بات سے متفق ہیں اور انہوں نے رولنگ دی کہ تحریک عدم اعتماد غیرآئینی ہے اور مسترد کی جاتی ہے۔
اس کے چند ہی منٹوں بعد وزیراعظم عمران خان پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر نمودار ہوئے اور کہا کہ انہوں نے صدر عارف علوی کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیج دی ہے۔
ایڈوائس بھیجنے کے کچھ دیر بعد ہی صدر عارف علوی نے پاکستان کی قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا۔ وزیر مملکت برائے فرخ حبیب کا کہنا ہے کہ نئے انتخابات 90 دن میں ہوں گے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو بھانپتے ہوئے پاکستان کی سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا ’ہم موجودہ صورت حال سے کسی ریاستی ادارے کو کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھانے دیں گے۔‘

وزیر اعظم عمران خان کی ایڈوائس پر صدر پاکستان نے قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا ہے۔ (تصویر: وزیراعظم ہاؤس)

افطار سے تقریباً ایک گھنٹہ قبل عدالت نے وزیراعظم، صدر مملکت، پاکستان بار کونسل، سیاسی جماعتوں، سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
یہاں سب سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی دی گئی رولنگ کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ اگر ان کی اس رولنگ میں کوئی خامی سامنے آتی ہے تو اس کی بنیاد پر اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اقدام کیا اپنی جگہ قائم رہے گا۔
ماہر قانون ریما عمر کے مطابق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ ’غیر آئینی‘ ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’عمران خان کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے مشورہ دیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’اسمبلیوں کو تحلیل کرنا ایک ایسے شخص کی ایڈوائس پر جس کے پاس کوئی اختیار نہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔‘
وکیل سالار خان نے وزیراعظم عمران خان کے اقدام پر کہا کہ ’بیرونی خطرات کی باتیں سب اپنی جگہ لیکن کسی غیر ملک نے آج ہمارے آئین کو پامال نہیں کیا۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’ہم اپنے لیے خود ہی کافی ہیں۔‘
وکیل مرزا معیز بیگ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’آپ جس بھی پارٹی کو سپورٹ کریں لیکن آج آئینی بالادستی اور قانون کی عملداری کے لیے سیاہ ترین دن تھا۔‘
بیرسٹر محمد احمد پنسوٹا کے مطابق ’آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی پر عدالت میں سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔‘ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’دیکھتے ہیں اب سپریم کورٹ کیا کہتی ہے۔‘
جبکہ وکیل اسد جمال کا کہنا ہے کہ ’ووٹوں کی گنتی سپیکر کے پاس موجود واحد آپشن ہوتا ہے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ (سپیکر) اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل گئے۔ بدنیتی ظاہر ہے۔‘
سپریم کورٹ کل پیر کو اس کیس کی دوبارہ سماعت شروع کرے گا اور دو مزید جج صاحبان اس بینچ کا حصہ ہوں گے۔

شیئر: