Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جلد الیکشن کی صورت میں کن بڑی جماعتوں کو سیاسی فائدہ ہوگا؟

حکمران جماعت مہنگائی اور گورننس کے مسائل کی وجہ سے چند ماہ قبل تقریبا ہر ضمنی الیکشن میں ہار رہی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
ڈپٹی سپیکر کی جانب سے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کے بعد صدر عارف علوی نے اسمبلی توڑ دی ہے اور حکومت نئے الیکشن کی تیاریوں میں نظر آ رہی ہے۔
 مگر اپوزیشن اس معاملے پر سپریم کورٹ جا چکی ہے اور بظاہر وہ فوری انتخابات کے بجائے کچھ اصلاحات کے بعد تین سے چھ ماہ میں انتخابات چاہتی ہے۔
اردو نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اگر ملک میں حکومتی خواہش کے مطابق فوری الیکشن ہو جائیں تو  ملک کی چار بڑی جماعتوں میں  کونسی جماعت زیادہ فائدے میں رہے گی؟
وزیراعظم عمران خان نے حالیہ انٹرویوز میں بھی کہا ہے کہ اس وقت ان کی جماعت کا بیانیہ عوام میں مقبول ہے اس لیے وہ فوری انتخابات چاہتے ہیں۔انہوں نے اپوزیشن جماعتوں پر الزام لگایا کہ وہ عوام کی عدالت میں جانے سے گھبرا رہی ہیں۔
دوسری طرف اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قائم ہونے والی عارضی حکومت کے ذریعے انتخابی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں کیونکہ حکومت نے یکطرفہ طور پر پارلیمنٹ میں قانون سازی کرکے الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینز اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے دیا ہے جس پر اپوزیشن جماعتوں کو شدید اعتراضات ہیں۔
دوسری جانب حکومت نے نگران حکومت کے قیام کے لیے قانونی تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں اور صدر عارف علوی نے اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم عمران خان کو نگران وزیراعظم کے لیے مشاورت مکمل کرنے کا خط بھی لکھ دیا ہے۔
اس صورتحال میں اگر فوری انتخابات ہو جائیں تو کونسی جماعتیں سیاسی طور پر فائدے میں رہیں گی؟

پی ٹی آئی کو بیانیے کی مقبولیت کا یقین

حکمران جماعت مہنگائی اور گورننس کے مسائل کی وجہ سے چند ماہ قبل تقریبا ہر ضمنی الیکشن میں ہار رہی تھی حتی کہ اپنے گڑھ خیبر پختونخواہ میں بھی بلدیاتی انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام سے بری طرح ہاری تھی، لیکن اب اچانک دوبارہ مقبولیت کی طرف گامزن ہے۔

صدر نے نگران حکومت کے قیام کے لیے قانونی تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان فوری انتخابات چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ ماہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد عمران خان نے بھرپور مہم چلائی اور اسے ایک غیر ملکی سازش قرار دیا۔ گو کہ اپوزیشن نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کیا ہے تاہم عمران خان اس بیانیے کے باعث  مہنگائی سے تنگ اپنے حامیوں کو واپس اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
 ان کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں اڈے نہ دینے کے دوٹوک موقف  اور ان کے حالیہ دورہ روس کی وجہ سے مغربی ممالک خصوصا امریکہ اور یورپی یونین ان سے ناراض ہیں اس سلسلے میں اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں انہوں نے ایک غیر ملکی مراسلے کو بھی لہرایا جس میں ان کے بقول ان کو دھمکی دی گئی ہے اور حکومت تبدیل کرنے سے تعلقات کی بہتری کو منسلک کیا گیا ہے۔
عمران خان نے متواتر اپوزیشن پر غداری کے الزامات عائد کرکے اپنے حامیوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ خود دار رہنما ہیں جو پاکستان کی عزت بحال کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب بھی کیا جن میں سب سے بڑا جلسہ 27 مارچ کو اسلام آباد میں ہوا تھا۔
خیبرپختونخواہ کے باقی اضلاع میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں ان کی جماعت کو ملنے والی کامیابی کو بھی وہ اس بیانیے کی فتح قرار دیتے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے صحافی اور سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن دونوں بڑی جماعتیں ہیں اور فوری الیکشن سے دونوں کو فائدہ ہو گا تاہم اس وقت بیانیے کی جنگ میں پی ٹی آئی تھوڑا زیادہ فائدہ اٹھائے گی۔

خیبرپختونخواہ کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کو ملنے والی کامیابی کو بھی عمران خان اپنے بیانیے کی فتح قرار دیتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق پی ٹی آئی کو فائدہ تب ہی ہو گا اگر عدالتی فیصلہ ان کے حق میں آتا ہے ورنہ ان کا بیانیہ ناکام ہو جائے گا۔

مسلم لیگ ن کو گزشتہ کارکردگی کا بھروسہ

پاکستان کی پارلیمنٹ کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ نواز گزشتہ کئی ماہ سے فوری انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی ہے اور پارٹی کے گڑھ پنجاب میں پی ٹی آئی کی کمزور گورننس کے باعث اسے امید تھی کہ اسے یہاں بڑی کامیابی ملے گی۔
یہ امید بے وجہ نہیں تھا بلکہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں ہونے والے تقریبا تمام ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن پنجاب سے کامیاب رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے صوبہ پنجاب میں وزیراعلی عثمان بزدار کے انتخاب نے ناصرف پارٹی میں متعدد ارکان کو ناراض کیا بلکہ مسلم لیگ ن کو سیاسی فائدہ بھی پہنچایا۔
عام تاثر تھا کہ ان کا طرز حکومت زیادہ موثر نہیں رہا۔ آئی جیز، چیف سیکرٹریز اور دیگر افسران کے بار بار تبادلے، بڑے ترقیاتی منصوبوں کی کمی کے باعث مسلم لیگ نواز پرامید ہے کہ ووٹر اس کے ترقی کے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
مسلم لیگ نواز کو مریم نواز شریف کی مقبولیت کا بھی فائدہ ہوگا جنہوں نے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں پارٹی کے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے کو خاصے جارحانہ انداز میں آگے بڑھایا ہے۔ حالیہ سرویز میں بھی یہ سامنے آیا ہے کہ پارٹی کا مقبولیت کا گراف خاص طور پر پنجاب میں اوپر گیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ عمران خان کا عالمی سازش اور خودداری کا بیانیہ مسلم لیگ کے ترقی اور کارکردگی کے بیانیے کے اوپر کتنا اثر انداز ہو گا۔

کیا عمران خان کا عالمی سازش اور خودداری کا بیانیہ مسلم لیگ کے ترقی اور کارکردگی کے بیانیے کے اوپر کتنا اثر انداز ہو گا۔؟ (فوٹو: ٹوئٹر)

سہیل وڑائچ کے مطابق پارٹی کا ووٹر ابھی بھی اس کے ساتھ کھڑا ہے اور فوری انتخاب کی شکل میں مسلم لیگ ن کو بھی فائدہ ہی ہوگا۔ اب دیکھنا ہو گا کہ انتخابات سے قبل پارٹی رہنما نواز شریف لندن سے وطن واپس آ سکیں گے اور کیا ان کے اور مریم نواز کے کیسز میں انہیں عدالتوں سے ریلیف ملے گا یا نہیں۔ نواز شریف کی لندن سے واپسی سے پارٹی کو بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کچھ عرصے بعد انتخابات کے حامی

پاکستان پیپلز پارٹی گزشتہ انتخابات میں سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی مگر مرکز میں تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔ ماہرین کے مطابق پیپلز پارٹی سندھ میں اب بھی اپنی مضبوط پوزیشن برقرار رکھے گی۔ شہری سندھ میں متحدہ قومی مومنٹ کے ساتھ حالیہ معاہدے کا کراچی میں پارٹی کو کتنا فائدہ یا نقصان ہوگا یہ بھی آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا۔
تاہم پنجاب، کے پی اور بلوچستان میں پارٹی کی مقبولیت میں گزشتہ سالوں میں کوئی خاص اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پیپلز پارٹی قیادت کو امید تھی کہ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں حاصل ہونے والی مرکزی اور صوبائی سطح پر اتحادی حکومت کے دوران وہ ان علاقوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کی کوشش کرے گی۔
تاہم اب اعلی عدلیہ سے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے معاملے پر فیصلے کے بعد ہی واضح ہو سکے گا کہ پیپلز پارٹی کو مزید وقت ملتا ہے یا نہیں۔
تاہم گزشتہ سال سے سابق صدر آصف زرداری اور پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور رہ کر سیاسی رابطے بڑھائے ہیں اور پارٹی کا جنوبی پنجاب میں ووٹ بینک بھی ہے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ آئندہ انتخابات میں جنوبی پنجاب میں کن الیکٹیبلز کو ٹکٹ دے گی اور کیا مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کا بھی امکان ہو گا۔

تاہم حالیہ بلدیاتی انتخابات میں  جے یو آئی کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم پیپلز پارٹی تین بڑی جماعتوں میں سب سے زیادہ یہ خواہش رکھتی ہے کہ اسے الیکشن سے قبل تھوڑا وقت مل جائے۔

جمعیت علمائے اسلام

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم)  کی قیادت اس وقت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے پاس ہے جس کی وجہ سے پارٹی میڈیا اور قومی سیاست کے مرکزی دھارے میں توجہ کا مرکز رہی ہے۔
گزشتہ دو سالوں میں مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ اور احتجاجی ریلیز کے ذریعے پارٹی کو منظم رکھا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جمعیت علمائے اسلام زیادہ تحصیلوں میں کامیاب ہوئی تھی جبکہ پی ٹی آئی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی۔ صوبے کے 13 اضلاع میں 20 تحصیلوں کے میئر یا چیئرمین کے انتخابات میں جے یو آئی کامیاب ہوئی تھی۔
تاہم حالیہ بلدیاتی انتخابات میں  پارٹی کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کا بیانیہ جے یو آئی کو کے پی میں کتنا نقصان پہنچائے گا۔
جے یو آئی کو صوبہ بلوچستان میں بھی کامیابی کی امید ہے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد  کے پی اور بلوچستان میں جے یو آئی کی مقبولیت میں کچھ اضافہ بھی متوقع ہے۔

شیئر: