Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 عمران خان آخری بال تک کھیلے

رات نو بجے تک ووٹنگ کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے(فائل فوٹو اے ایف پی)
 قومی اسمبلی کا اجلاس سنیچر کو ساڑھے دس بجے شروع ہوا اور اگلے دن اتوار کو اجلاس ملتوی ہوا تو بہت کچھ بدل چکا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف 8 مارچ کو پیش کی جانے والے تحریک عدم اعتماد بالآخر 10 اپریل کو 174 ووٹوں سے کامیاب ہو گئی۔ْ
سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہر صورت سنیچر 9 اپریل کو ہونا تھی مگر صبح ساڑھے دس سے رات نو بجے تک ووٹنگ کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔
پورا دن حکومتی ارکان کی تقاریر ہوتی رہیں جس کے جواب میں اپوزیشن ارکان بھی فلو پر بولتے رہے اور ووٹنگ کا مطالبہ کرتے رہے مگر سپیکر اسد قیصر اور پینل آف چئیرمین کے امجد نیازی ٹس سے مس نہ ہوئے ۔ اپوزیشن ارکان نے انہیں آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا مگر جواب میں وہ صرف اتنا کہتے رہے کہ سپریم کورٹ فیصلے پرعمل کریں گے مگر ابھی تقاریر ہونے دیں۔
اس صورتحال میں اپوزیشن ارکان اسمبلی اور منحرف ارکان بھی پورا دن ڈٹے رہے اور اچانک ووٹنگ کی صورت میں اکثریت کھو دینے کے ڈر سے نمازیں بھی اسمبلی حال میں پڑھیں۔ افطاری بھی گیلریوں میں کی اور باقی ضروریات بھی ادھر ہی پوری کیں۔
صبح سے آئے پریس گیلری میں موجود صحافی بھی بہت مضطرب رہے۔ خواتین سمیت صحافیوں نے افطاری بھی پارلیمنٹ میں کی اور روزے کے باجود فرض نبھاتے رہے۔
سپییکر اسد قیصر اجلاس کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد ملتوی کرتے پھر دوبارہ شروع کر دیتے۔ یوں لگ رہا تھا آج اپوزیشن کے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے۔
سب کچھ ایسا ہی تھا تاہم نو بجے کے قریب اچانک حکومتی اوراپوزیشن بنچز پر ہلچل شروع ہو گئی۔ وزیراعظم کا پارلیمنٹ میں موجود چیمبر بھی کھول دیا گیا۔
اس سے کچھ دیر قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دھمکی آمیز مراسلے کو چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی اور چیف جسٹس پاکستان تک پہنچانے کی منظوری دی گئی۔

دن ختم ہونے میں صرف بیس منٹ باقی تھے کہ بڑی خبر سامنے آئی سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے استعفی دے دیا(فوٹو اردونیوز)

باہر سے اطلاعات آ رہی تھیں کہ ریڈ زون سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دفاتر بھی رات گئے کھل گئے ۔عدالت عالیہ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی اور عدالت کا عملہ رات 10 بجے ہائی کورٹ پہنچا۔
صحافیوں کی ٹیمیں پارلیمنٹ ہاوس سے سپریم کورٹ روانہ ہو گئیں۔ جہاں رات پونے گیارہ بجے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور سپیکر رولنگ کیس میں فیصلہ دینے والے دیگر چار ججز بھی عدالت پہنچے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے عدالتی فیصلے پر عمل نہ کیے جانے پر توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی۔
اس دوران ایوان کے اندر شہباز شریف داخل ہوئے تو ان کی چال ڈھال بدلی بدلی تھی۔ ایوان میں کسی نے کہا کہ یہ وزیراعظم والے انداز میں اندر آئے ہیں۔ اپوزیشن کو شاید کسی نے خبر دے دی تھی کہ حالات بدل گئے ہیں اس لیے پورے دن میں پہلی بار وزیراعظم شہباز شریف کے نعرے بلند ہوئے۔ کچھ دیر بعد آصف زرداری ایوان میں آئے تو ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے لگے۔
اسی دوران سپیکر چیمبر میں بھی ہلچل شروع ہو گئی اور ایوان میں موجود سارجنٹ ایٹ آرمز تیزی سے حرکت کرنا شروع ہو گئے جب کہ اپوزیشن ارکان بھی بار بار سپیکر آفس کے چکر لگانا شروع ہو گئے۔

 کچھ دیر بعد آصف زرداری ایوان میں آئے تو ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے لگے(فوٹو ٹوئٹر پی پی میڈیا سیل)

تقریبا دن ختم ہونے میں صرف بیس منٹ باقی تھے کہ بڑی خبر سامنے آئی کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے استعفی دے دیا ہے۔ اسی وقت سپیکر اسد قیصر ایوان میں داخل ہوئے اور اپنے استعفی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ عمران خان کے ساتھ رہے ہیں ان کے ساتھ بے وفائی نہیں کر سکتے انہیں غیر ملکی مراسلہ دیا گیا ہے جس میں پاکستان کے خلاف سازش کے الزامات ہیں اس لیے وہ عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ نہیں بن سکتے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پینل آف چئیرمین میں نامزد اپوزیشن رکن اور سابق سپیکر ایاز صادق کو اجلاس کی صدارت کی دعوت دی اور خود ایوان سے روانہ ہو گئے۔
ایاز صادق نے کرسی صدارت سنبھالتے ہیں سابق سپیکر کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اوران کی وفاداری کی داد دی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایجنڈا آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے اور رات بارہ بجے کے بعد اگلے دن کے لیے نیا سیشن شروع کرنا ہوگا ۔ ہاوس سے رائے لی تو سب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل بھی کرنا ہے اس لیے ووٹنگ کا عمل شروع کر دیں اسے مکمل اگلے دن کر لیں۔ پھر اجلاس ملتوی کر کے چند منٹ بعد نیا اجلاس بلایا گیا اور ووٹنگ کرائی گئی۔
اس دوران منحرف ارکان اور کراچی سے پی ٹی آٗی رکن عامر لیاقت بھی ایوان میں موجود تھے مگر انہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ماہرین کے مطابق ووٹنگ میں حصہ لینے پر انہیں سیٹ چھوڑنا پڑ سکتی تھی اس لیے صرف اتحادیوں کے ووٹ استعمال کیے گئے اور یوں 174 ووٹ لے کر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔

حکومت کی طرف سے علی محمد خان ایوان میں اکیلے بیٹھے رہے(فوٹو ٹوئٹر )

اس دوران جذباتی مناظر بھی دیکھنے میں آئے جب بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور اپنی والدہ کا مشہور فقرہ بولا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے تو ان کی آواز رندھ گئی اور وہ بیٹھ گئے۔ مہمانوں کی گیلری میں موجود ان کی بہن آصفہ بھٹو بھی آبدیدہ تھیں۔ ساتھ بیٹھے والد آصف زرداری نے ان کو تقریر پر شاباش دی۔
مہمانوں کی گیلری میں مولانا فضل الرحمن بھی پہنچ گئے جو کہ پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں مگر رکن اسمبلی نہیں۔ ایوان نے ان کا بھرپور استقبال کیا اور شہباز شریف، بلاول اور شاہد خاقان عباسی ان کے پاس جا کر ملے۔
حکومت کی طرف سے علی محمد خان ایوان میں اکیلے بیٹھے رہے۔ مگر اپوزیشن ارکان بار بار ان کے پاس جاتے رہے۔ بلاول بھٹو نے انہیں گلے لگایا اسی طرح ن لیگ اور پیپلز پارٹی ارکان نے بھی ان کے پاس جا کر احوال دریافت کیا۔
اس موقع پر پریس گیلری میں صحافیوں کا کہنا تھا کہ امید ہے یہ حکومت سیاسی انتقام کے بجائے سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے سب کو ساتھ لے کر چلے گی۔  
اس بات کا اعلان  متوقع وزیراعظم شہباز شریف نے بھی کیا اور اعلان کیا کہ کسی سے بدلہ نہیں لیں گے۔

شیئر: