Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان اپوزیشن میں کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں؟

عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائے جانے سے 44 روز پہلے عوام کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر میں اقتدار سے باہر نکل گیا تو میں آپ کے لیے زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا۔‘
بظاہر انہوں نے یہ پیغام اپوزیشن کو دیا تھا جو اس وقت حکومت کے خلاف ایک لانگ مارچ کی تیاری کر رہی تھی۔
آنے والے دنوں میں ان کی حکومت گرانے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں تیزی آتی گئی اور اس کے حتمی مرحلے کا آغاز آٹھ مارچ کو تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ میں جمع ہونے کے ساتھ ہی ہو گیا۔  
اس سے محض چند ماہ پہلے تک نہ صرف وزیراعظم بلکہ کئی وزرا بھی بار بار کہتے رہے کہ وہ اپنی مدت تو پوری کریں گے ہی لیکن اگلے الیکشن بھی جیتیں گے۔
تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد بھی وزیراعظم نے کہا کہ یہ ان کو مزید مضبوط بنائے گی اور اس کی ناکامی کے بعد وہ اگلے انتخابات بھی جیتیں گے اور اپوزیشن 2028 تک اقتدار بھول جائے گی۔  
ان کے اس اعتماد کے پیچھے ایک تو ان کا یہ یقین تھا کہ وہ آج بھی پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور عوام ان کو ہر صورت سپورٹ کریں گے اور دوسرا ان کا ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مثالی تعلق تھا جس میں ان کے اقتدار کے لمبے عرصے تک کوئی دراڑ نظر نہیں آئی۔  

نواز شریف نے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد خطرناک بننے کا راستہ اپنایا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم جوں جوں ان کی حکومت کے خاتمے کا عمل تیز ہوتا گیا ان کی طرف سے اس کے جواب میں شدید مزاحمت کے دعوے بھی بڑھتے گئے۔ اپنے دعوؤں کا عملی ثبوت دینے کے لیے انہوں نے 27 مارچ اپنے تمام حامیوں کو اسلام آباد آنے کی کال دی اور اس موقع پر ایک بڑا سرپرائز دینے کا بھی اعلان کیا۔  
وہ ایک بڑا پاور شو کرنے میں کامیاب رہے اور خطاب کے دوران اپنے خلاف کی جانے والی کوششوں کو ایک نیا زاویہ دیتے ہوئے انہوں نے تحریک عدم اعتماد کو ایک غیر ملکی سازش قرار دیا۔ 
  اس خطاب میں جو ان کی سیاسی بقا کی نئی جدوجہد میں اب ایک نقطہ آغاز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، انہوں نے کہا کہ اب وقت بدل گیا ہے اور انہیں علم ہے کہ ان کے خلاف مختلف نظریات رکھنے والی جماعتوں کو کس نے اکٹھا کیا ہے اور وہ کسی کی غلامی قبول نہیں کریں گے۔ 
عمران خان کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ اپوزیشن میں ہر اس فرد اور قوت کے خلاف بھرپور مہم چلائیں گے جس نے ان کے خیال میں ان کی معزولی میں کردار ادا کیا ہے۔ 
اس مہم کے دوران وہ اپنے اہداف کے خلاف کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں اس کا تجزیہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ 
سینیئر صحافی اور انگریزی روزنامہ ڈان کے کالم نگار فہد حسین سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے ابھی عمران خان کی حکمت عملی زیادہ واضح نہیں ہے۔ 

طویل عرصے تک عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں دراڑ نظر نہیں آئی۔ (فوٹو: اے پی)

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے فہد حسین کا کہنا تھا کہ عمران خان کے حالیہ سیاسی رویے کے بھرپور مشاہدے کی ضرورت ہے۔  
’وہ کیا بولیں گے، کس طریقے سے بولیں گے، ان کا ہدف کیا ہوگا؟ اگر تو وہ اپوزیشن کے خلاف بولتے ہیں تو یہ معمول کا معاملہ ہوگا لیکن اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو پھر معاملات پیچیدہ ہو جائیں گے۔‘ 
اس سوال پر کہ عمران خان کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، کے جواب میں فہد حسین نے کہا ’یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں، وہ عوامی رابطہ مہم پر نکلتے ہیں، انٹرویوز دیتے ہیں یا بیان بازی کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ اگر وہ عوام میں جا کر اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو اس کے اثرات تو مرتب ہوں گے۔‘ 
انہوں نے  یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرناک بننے کا رستہ ماضی میں نواز شریف نے اپنایا تھا اور پھر ایک وقت آیا کہ انہیں یہ رستہ چھوڑ کر خاموشی اختیار کرنا پڑی تھی۔  
’دیکھنا یہ بھی ہے کہ عمران خان نواز شریف سے سبق سیکھتے ہیں کہ نہیں۔ اگر مزاحمت کی سیاست اختیار کرکے بعد میں خاموشی اختیار کرنی ہے یا پھر اقتدار میں واپس آنے کے لیے اپنا طرز عمل تبدیل کرنا ہے تو پھر کیا فائدہ؟‘ 
اگر عمران خان کی شخصیت اور پچھلے 25 سال کی سیاسی زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان کے خطرناک بننے والے بیانات کسی حد تک درست معلوم ہوتے ہیں۔ 

عمران خان نے عوام کے ساتھ ٹیلی فونک بات چیت میں کہا تھا کہ اگر اقتدار سے نکالا گیا تو مزید خطرناک ہو جائیں گے۔ (فوٹو: ٹوئٹر: پی ٹی آئی)

اگر وہ احتجاج کی راہ اپناتے ہیں اور سڑکوں پر نکلتے ہیں تو اپنی عوامی سپورٹ کے ذریعے وہ نظام کو مشکلات کا شکار کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ 
سینیئر تجزیہ نگار مظہر عباس کے مطابق وہ حکومت کھونے کے رد عمل میں ایک انتہائی شدید اور نظام کے لیے خطرناک احتجاج کر سکتے ہیں۔ 
’ وہ پہلے کی طرح دھرنا دے سکتے ہیں، سڑکیں بلاک کر سکتے ہیں، ایسا احتجاج کر سکتے ہیں کہ حالات اداروں کے کنٹرول سے باہر ہو جائیں اور حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوں۔‘  
مظہرعباس کے مطابق ’عمران خان نئی بننے والی حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے اور وہ کام نہیں کر سکے گی۔ وہ اپنے احتجاج اور مزاحمت سے حالات اس نہج پر لے جائیں گے کہ نئے انتخابات کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔
کیا نئی حکومت اتنی بے بس سمجھی جا سکتی ہے کہ وہ عمران خان کو اتنی بڑی مہم  چلانے دے اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرے؟ 
اس سوال کا جواب سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی دیتے ہیں۔ 

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عمران خان پہلے کی طرح دھرنا بھی دے سکتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خطرناک ہونے والے بیانات اپنی جگہ لیکن وہ خود بھی اپنے خلاف چلنے والی متوقع مہم سے خوفزدہ ہیں۔ 
’ہمیں ایک ملاقات میں عمران خان نے بتایا تھا  کہ ان کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم چل سکتی ہے اور ان کی کردار کشی ہو سکتی ہے۔ ان کو اس سے نمٹنے کے لیے پریشانی لاحق ہے۔‘ 
مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’اس سے بڑا چیلنج ان کے لیے اگلے انتخابات میں اپنے زیادہ اراکین کو نشستیں جتوا کر اسمبلی میں لانا ہے۔‘ 
’وہ ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ وہ قائد حزب اختلاف بھی ہیں۔ ان کے لیے میدان کھلا ہے۔ وہ بطور اپوزیشن لیڈر سیاست کریں، مقابلہ کریں۔ ان کی سپورٹ بھی ہے وہ اس سپورٹ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے زیادہ سے زیادہ اراکین کو اسمبلی میں لائیں۔‘

شیئر: