Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گاف، گول گول گھومتا اور گھماتا حرف

لفظ غلیل کی اصل ’گُلیل‘ ہے (فوٹو: اردو نیوز)
کون سمجھائے کہ دنیا گول ہے 
آپ نے جیسی سنی ویسی کہی 
’دنیا گول ہے‘، گلیلیو نے جب یہ انکشاف کیا تب انعام میں عتاب پایا، مگر اس عتاب سے انکشاف نہ بدلا جا سکا۔ آج وہ بھی دنیا کے گرد گول گول گھومتے ہیں جو اسے اب بھی چپٹا سمجھتے ہیں۔  
دنیا کی بے قدری اس کے نام ہی سے ظاہر ہے، اس لیے اس کی بات نہیں کرتے بلکہ اس کی صفت ’گولائی‘ کا ذکر کرتے ہیں۔  
پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ سنسکرت اور فارسی ماں جائی بہنیں ہیں، سو ان دونوں زبانوں میں اشتراک الفاظ کے علاوہ بے شمار الفاظ ایک ہی بیخ وبُن کے برگ و بار ہونے کا پتا دیتے ہیں۔  
سنسکرت اور اس کے زیر اثر ہندی اور اردو میں کتنی ہی کروی (rounded) چیزوں کے ناموں میں 'گاف، گاف واؤ (گو) یا  گاف لام (گل) کا اثر نمایاں نظر آتا ہے، اور یہی کچھ فارسی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ 
اردو میں جو ’گول‘ ہے وہ فارسی میں ’گرد‘ ہے۔ جسے ہم  گولا، گولی اور گُلہ کے ناموں سے جانتے ہیں، اہل فارس اُن تینوں کو ’گُلُولہ‘ پکارتے ہیں۔ ایران میں اس ’گُلُولہ‘ کا تلفظ ’غُلُولہ‘ بھی کیا جاتا ہے۔ 
گولا اور گولی کی بہ نسبت ’گُلہ‘ کا لفظ وضاحت طلب ہے۔ ’گُلہ‘ دراصل مٹی کی اُس ’گولی‘ کو کہتے ہیں جو ’غلیل‘ میں رکھ کر چلائی جاتی ہے۔ اگر بات یہی ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ ’گُلہ‘ کے تعلق سے ’غلیل‘ کی اصل ’گُلیل‘ ہے۔
چونکہ حرف گاف اور غین کا مخرج ایک ہی ہے اس لیے ان حروف کا باہم بدل جانا عام بات ہے۔  
اب ’گولائی‘ کے تعلق سے ’گیند‘ پر غور کریں. اس ’گیند‘ کی اصل سنسکرت کا ’گیندُک / गेन्दुक ‘ ہے۔ سنسکرت میں 'گیند' کے لیے درجن بھر سے زائد الفاظ آئے ہیں۔ ان میں‘ گیندُک کے علاوہ گلیکا/ गुलिका، گولا / गोल اور گوٹی/ गुटी بھی شامل ہیں، ان میں سے ہر لفظ کا آغاز ’گاف‘ کی آواز سے ہو رہا ہے۔ 

عربی کے 'جَرَّہ' کی اصل اردو کا 'گھڑا' ہے (فوٹو: ٹوئٹر، نیلوفر)

 
فارسی میں گیند کو ’گوی/ گوے‘ کہتے ہیں، سو اس نسبت سے اہل ایران آفتاب کو گوی زر اور گوی زرین جب کہ مہتاب کو گوی نقرہ اور گوی سیم پکارتے ہیں۔ جب کہ زمین کو اس کے ساکن ہونے کے نظریے سے ’گوی ساکن‘ کہا جاتا ہے۔ لگے ہاتھوں 'گنبد' پر بھی غور کر لیں جو گونج کے ساتھ گولائی کا تأثر بھی لیے ہوئے ہے۔ 
فٹ بال، والی بال اور باسکٹ بال سمیت 17 ایسے مختلف کھیل ہیں جن میں مختلف حجم، ہیئت اور رنگوں کی گیند استعمال ہوتی ہے۔ ان میں سے چند کھیل ایسے ہیں جو اندرون خانہ (indoor) کھیلے جاتے ہیں اور جس جگہ کھیلے جاتے ہیں اس کو انگریزی میں جمخانہ / gymkhana کہا جاتا ہے۔ 
کہنے کو تو جمخانہ / gymkhana انگریزی ترکیب ہے مگر اس کا لاحقہ 'خانہ' بزبان حال اپنے فارسی الاصل ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔ 
اینگلو اینڈین الفاظ کی لغت کے مطابق 'جمخانہ' کی اصل 'جنڈ خانہ' ہے، جس کے لفظی معنی 'بال ہاؤس' یا 'گیند گھر' کے ہیں۔ اس 'جنڈ خانہ' کی تبدیل شدہ صورت 'جمخانہ' ہے، جواصطلاح میں 'ریکٹ کورٹ' کو کہتے ہیں۔  
ممکن ہے اس gymkhana کے پہلے جُز سے آپ کا ذہن جِم / gym کی طرف منتقل ہوا ہو، جو جمناسٹک اور جمنازیم جیسی تراکیب میں بھی نمایاں ہے اور ورزش کی رعایت سے کھیل سے قریب ہے۔ 
حقیقت میں 'جِم / gym' یا جمنازیم وغیرہ کا زیر بحث 'جمخانہ' سے کوئی واسطہ نہیں۔ جمنازیم کی اصل یونانی زبان سے متعلق ہے اور اس کے لفظی معنی میں بے لباسی کے ساتھ ورزش کرنے کی جگہ کے ہیں۔ 

جِم یا جمنازیم وغیرہ کا جمخانہ سے کوئی تعلق نہیں ہے (فوٹو: انسپلیش)

پہلے بھی نشاندہی کر چکے ہیں کہ حرف گاف حسب موقع جن الفاظ سے بدلتا ہے، ان میں حرف 'جیم' بھی شامل ہے۔ مثلاً جبرائیل کی انگریزی صورت گبرائیل ہے۔ ایسے ہی 'گوہر' کی دوسری صورت 'جوہر' ہے۔ جس کے متعلق مشہور مقولہ ہے کہ 'قدرِ جوہر شاہ داند یا بداند جوہری'، یعنی ہیرے کی قدر بادشاہ جانتا یا پھر جوہری۔ 
خیر گاف اور جیم کو اس تبدیلی کو پیش نظر رکھیں تو انگریزی 'گیم' کی دوسری صورت 'جیم' بنتی ہے اور یہ جیم تخفیف کے بعد 'جم' ہوا اور اندورن خانہ کھیل کی مناسبت سے 'جمخانہ' میں ڈھل گیا۔  
'جمخانہ' کی یہ وجہ تسمیہ قیاسی ہے تاہم اس بھی انکار ممکن نہیں کہ بعض اوقات الفاظ اپنی صورت کے ساتھ معنی بھی بدل لیتے ہیں، اور بعد والوں کی گمان بھی نہیں گزرتا کہ اس کی اصل کبھی کچھ اور بھی رہی ہو گی۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مختلف زبانوں میں الفاظ کا تبادلہ ایک قابل توجہ موضوع ہے اور اہل علم اس میں ہمیشہ دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے برصغیر میں سید سلیمان ندوی ایک نمایاں نام ہیں۔  

گلیلیو نے جب دنیا کو گول قرار دیا تو بدلے میں عتاب پایا (فوٹو: سوشل میڈیا)

سید صاحب نے بذلہ سنج طبیعت پائی تھی۔ ایک بار آپ حیدرآباد دکن میں واقع مشہور عثمانیہ یونیورسٹی میں لیکچر دینے آئے۔ دوران لیکچر آپ نے ضمناً فرمایا انگریزی لفظ ’Jar /جار‘ اصل میں عربی لفظ ’جَرَّہ‘ سے ماخوذ ہےـ  
بات اپنی جگہ درست بھی ہے کہ اگر عربی میں ’جَرَّہ‘ کا اطلاق مٹکے اور صراحی وغیرہ پر ہوتا ہے تو انگریزی 'Jar /جار' کی تعریف میں مرتبان وغیرہ داخل ہے۔  
خیر جس وقت سید سلیمان ندوی نے انگریزی Jar کو عربی 'جَرَّہ' سے ماخوذ بتایا اسی وقت لیکچر میں موجود طالب علم ڈاکٹر حمید اللہ نے اس میں اضافہ کیا اور نشاندہی کی کہ خود عربی کے 'جَرَّہ' کی اصل اردو کا 'گھڑا' ہے۔ جس پر سید صاحب نے  فوراً فرمایا 'ممکن ہے اسی سے گھڑا ہو۔' 
سید صاحب نے 'گھڑا' کو حسب موقع جس طور ذو معنی میں برتا اس نے جملے کا لطف دوبالا کر دیا۔ اس لیے کہ 'گھڑا' کا اگر ایک معنی 'مٹکا' ہے تو اس دوسرے معنی میں گھڑنے یعنی وضع کرنے نسبت رکھتا ہے۔

شیئر: