Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا نورعالم خان نے افطار پارٹی کے دوران بزرگ شہری پر تشدد کیا؟

ٹویپس کے مطابق افطار کے دوران تشدد کا واقعہ نجی ہوٹل میں پیش آیا ہے (فوٹو: ویڈیو گریب)
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں منعقدہ افطار پروگرام کے دوران شرکا کے درمیان لڑائی کے مناظر سوشل ٹائم لائنز پر وائرل ہوئے ہیں۔
منگل کو افطار کے بعد سامنے آنی والی ویڈیوز میں پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر، پارٹی رہنما ندیم افضل چن، پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن اسمبلی نورعالم خان نمایاں ہیں۔
مختصر دورانیے کی الگ الگ ویڈیوز میں پہلے ایک شخص کو ہاتھ میں موجود برتن دوسروں پر پھینکتے دیکھا جا سکتا ہے جس کے بعد پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر ٹیبل سے برتن اٹھا کر پھینکتے ہوئے دکھائی دیے۔
مارپیٹ اور دھکم پیل کے دوران افطار پارٹی میں شریک افراد بیچ بچاؤ کی کوشش کراتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
ویڈیو پر تبصرہ کرنے والوں نے دعوی کیا کہ نجی ہوٹل میں افطار کے دوران وہاں موجود ایک فرد نے پی ٹی آئی کے منحرف رکن اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں پر آوازیں کسیں، اس کے بعد مصطفی نواز کھوکھر نے مذکورہ شخص کو پیٹا۔
ویڈیو شیئر کرنے والوں نے مار کھانے والے شخص کی شناخت کیے بغیر دعوی کیا کہ بزرگ شخص کو زدوکوب کرنے پر سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کو وہاں موجود دیگر لوگوں نے روکا۔
کچھ دیگر سوشل میڈیا صارفین نے دعوی کیا کہ اگر کوئی انحراف کرتا ہے اور اسے یہ بات یاد دلائی جاتی ہے تو ایسا کرنے پر کسی کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔

مصطفی نواز کھوکھر کے ردعمل کا دفاع کرنے والے افراد کا کہنا تھا کہ بزرگ فرد نے پہل کی، آوازیں کسنے کے ساتھ وہاں موجود افراد کو کپ اٹھا کر مارا، جس کے جواب میں تقریب میں شریک افراد نے جواب دیا۔

پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی قرار دیے جانے والے زلفی بخاری نے معاملے پر ردعمل میں لکھا کہ ’عوام کی حمایت کے بغیر مسلط ہونے والی امپورٹڈ گورنمنٹ کا پہلا دن۔‘

تشدد کے مناظر شیئر کرنے والوں میں سے کچھ افراد نے اسلام آباد پولیس کو مینشن کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حملہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے۔
ٹیلی ویژن میزبان اجمل جامی نے ویڈیو پر تبصرے میں لکھا کہ ‘افسوس صد افسوس، یہ راہنما ہیں؟‘

نجی ہوٹل میں لڑائی کی ویڈیو شیئر کرنے اور ان پر تبصرہ کرنے والوں میں خاصی تعداد ایسے افراد کی بھی تھے جو افطار کے موقع پر لڑائی کرنے والوں کو عدم برداشت کا رویہ ترک کرنے کا مشورہ دیتے رہے۔

شیئر: