Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب اسمبلی: ڈپٹی سپیکر پر تشدد اور ’ریسلنگ کے پہلے راؤنڈ پر گھنٹیاں‘

پنجاب اسمبلی میں نئے وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے اجلاس سنیچر کی صبح ساڑھے 11 بجے طلب کیا گیا تھا اور 10 بجے سے ہی اسمبلی کے احاطے میں گہماگہمی شروع ہو گئی۔ سکیورٹی کے پیش نظر اسمبلی کے داخلی دروازے پر رینجرز اور پولیس تعینات کی گئی تھی۔
10 بجے کے قریب اراکین اسمبلی آنا شروع ہوئے تو اپوزیشن نے حکمت عملی کے تحت اپنے ایم پی ایز کو بسوں کے ذریعے اسمبلی کی عمارت میں منتقل کیا۔ پانچ بسوں میں سے ایک خواتین کی تھی۔
حکومتی اراکین بھی پہنچنا شروع ہوئے اور دونوں اطراف کی قیادت بھی پہنچی۔ حمزہ شہباز، پرویز الٰہی، علیم خان اور سردار عثمان بزدار بھی 11 بجے سے پہلے ہی اسمبلی میں پہنچ گئے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپوزیشن اور تحریک انصاف کے منحرف اراکین جب اسمبلی میں آئے تو ان کے چہرے کِھلے ہوئے تھے البتہ حکومتی ارکان کا معاملہ کچھ مختلف تھا۔ پرویزالٰہی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اندر کچھ ہو سکتا ہے۔‘
چوںکہ پُرامن انتخاب کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ نے باقاعدہ حکم جاری کر رکھا ہے اس لیے اپوزیشن ارکان کو وہ خدشہ دکھائی نہیں دیا جو پرویز الٰہی بھانپ چکے تھے۔
پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس ہوئے تو اپوزیشن کی طرف 198 اراکین نظر آئے جبکہ حکومت کے 100 کے قریب اراکین اجلاس میں آئے۔
خیال رہے کہ وزیراعلیٰ بننے کے لیے 186 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی خواتین لوٹے لے کر اسمبلی میں پہنچی تھیں (فوٹو: سکرین گریب)

اجلاس ساڑھے 11 بجے شروع ہونا تھا تاہم 12 بجے کے قریب اپوزیشن اراکین ہال میں آنا شروع ہوئے تو حکومتی بینچز پر تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے اراکین بھی آ گئے۔ سوا 12 کے قریب اچانک حکومتی اراکین نے پلاسٹک کے لوٹے نکال لیے اور احتجاج شروع کر دیا، تھوڑی دیر احتجاج کرنے بعد ہال میں ایک مرتبہ پھر سکون ہو گیا۔
ساڑھے 12 بجے کچھ ہلچل ہونا شروع کوئی اور سکیورٹی بھی بلا لی گئی، سیکریٹری اسمبلی محمد خان بھٹی سپیکر چیمبر کے راستے ہال میں داخل ہوئے تو ان کے پانچ منٹ بعد ڈپٹی سپیکر دوست مزاری داخل ہوئے ان کے آگے آگے اسمبلی روایت کے مطابق اہلکار علامتی گُرز اٹھائے ہوئے تھے۔
جس لمحے ڈپٹی سپیکر نے ہال کے اندر قدم رکھا اسی لمحے میں ہال میں شور بلند ہوا جو بڑھتا گیا اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ تحریک انصاف کے اراکین اچانک ڈپٹی سپیکر کی طرف لپکے اور کچھ پلاسٹک کے لوٹے ان کی طرف اچھالے۔
اسی دوران ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے سکیورٹی اہلکاروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنی پوزیشنیں سنبھالیں، سکیورٹی نے ان کو گھیرے میں لے لیا لیکن تحریک انصاف کے ایک درجن سے زائد اراکین سپیکر کی کرسی تک پہنچ چکے تھے اور انہوں نے حملہ کر دیا۔
یہ حملہ بظاہر کوئی احتجاج کا منظر نہیں تھا بلکہ تشدد پر مبنی تھا۔ ڈپٹی سپیکر اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے جب ان کو پہلا تھپڑ مارا گیا۔ سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں بچانے کی کوشش کی، تاہم اس دوران کسی نے ان کو گھونسے مارے اور کسی نے بال کھینچے۔

پرویزالٰہی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ’اندر کچھ ہو سکتا ہے‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

گیلری میں بیٹھے صحافی بھی اپنے اپنے دفاتر کو رپورٹ بھجوانے کے لیے باہر کی طرف لپکے کیونکہ اسمبلی ہال کے اندر موبائل سگنلز نہیں آتے۔
گیلری کے دروازے کھول کے باہر نکلے تو اسمبلی اجلاس کو شروع کرنے سے قبل بجائی جانے والی گھنٹیوں کی آواز ابھی بھی آرہی تھی۔ ایک طرف سے آواز ابھری لگتا ہے ریسلنگ کے پہلے راؤنڈ کے اختتام کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔
 پولیس اہلکار ڈپٹی سپیکر کو حملوں سے بچاتے ہوئے دوبارہ چیمبر میں لے گئے۔ اس دوران اپوزیشن بینچوں پر مکمل سکوت طاری رہا جیسے وہ اس سارے عمل کو ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ڈپٹی سپیکر کے اپنے چیمبر میں جانے کے بعد حکومتی اراکین نے سپیکر کی نشست پر قبضہ کر لیا اور کرسی توڑ دی۔ پرویز الٰہی اور عثمان بزدار اگلی نشستوں پر یہ مناظر دیکھتے رہے۔ پرویز الٰہی نے مائیک سنبھال لیا اور انہوں نے اس بات پرتنقید کی کہ اسمبلی ہال کے اندر پولیس کیوں آئی۔
یوں پنجاب اسمبلی کا اجلاس جو وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے بلایا گیا تھا ابھی تک شروع ہی نہ ہو سکا۔

شیئر: