Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میرزا غالب اور سیلاب بلا، عبدالخالق بٹ کا کالم

’سیلاب‘ کا جُز اول ’سیل‘ عربی الاصل ہے، اس کے معنی ’پانی کا ریلا‘ کے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
یہ کشتیِ حیات یہ طوفانِ حادثات
مجھ کو تو کچھ خبر نہ رہی آر پار کی
’کشتیِ حیات‘ کے مقابل ’طوفانِ حادثات‘ کی ترکیب شاعر کے قدرت کلام ہی نہیں ندرت کلام کا بھی ثبوت ہے۔ اس خوبصورت شعر میں ہماری دلچسپی ’طوفان‘ سے ہے۔
’طوفان‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جو لفظ ’الطوف‘ سے متعلق ہے۔ ’الطوف‘ اور اس سے مشتق الفاظ کا مشترکہ مفہوم ’گھومنا اور چکر لگانا‘ ہے۔
اس بات کو لفظ ’طواف‘ سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ جسے غالب نے ان الفاظ کے ساتھ برتا ہے:
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
اب گھومنے اور چکر لگانے کے معنی ذہن میں رکھیں اور ’طوفان‘ پر غور کریں، فوراً جان جائیں گے کہ یہ سمندر میں بھَنوَر بنے کا وہ عمل ہے جو تند و تیز ہوا کے دباؤ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس بات کو ’ظامن جعفری‘ کے شعر سے سمجھیں، جنہوں نے طوفان، طواف اور بھَنوَر، تینوں الفاظ کو ایک شعر میں سمو دیا ہے: 
طوفان کر رہا تھا مِرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھَنوَر میں ہے

typhoon  لہجے کے معمولی تغیّر کے ساتھ یورپ سمیت دنیا کی بہت سی زبانوں میں رائج ہے۔ (فوٹو: جیوگراف)

خیر گھومتا گھماتا چکر لگاتا یہ ’طوفان‘ جب بحیرہ عرب سے انگلش چینل میں داخل ہوا تو اہل انگلستان نے اس ’طوفان‘ کا استقبال ’ٹائیفون / typhoon‘ کی صورت میں کیا۔ اب یہی typhoon  لہجے کے معمولی تغیّر کے ساتھ یورپ سمیت دنیا کی بہت سی زبانوں میں رائج ہے۔ 
اردو میں ’طوفان‘ اپنے لفظی معنی کے علاوہ دس سے زیادہ اصطلاحی اور مجازی معنی میں بھی برتا جاتا ہے۔ ان معنی میں دریا کی وہ کیفیت بھی شامل ہے جب وہ برسات کی شدت میں بے قابو ہوجاتا اور گاہے کناروں سے تجاوز کر جاتا ہے، دریا کی اس صورت کو ’طغیانی‘ کہا جاتا ہے۔
اردو میں جہاں عربی کے ’تبدیل اور معطل‘ وغیرہ سے ’تبدیلی اور معطلی‘ جیسے الفاظ وضع کیے گئے ایسے ہی ’طغیان‘ سے ’طغیانی‘ بھی بنا لیا گیا۔
عربی قواعد کی رو سے ’تبدیلی، معطلی اور طغیانی‘ وغیرہ بھلے ہی غلط ہوں، مگر اردو میں یہ الفاظ درست بھی ہیں اور اساتذہ سے سند قبولیت بھی پا چکے ہیں۔ دیکھیں جگر مراد آبادی کیا کہہ رہے ہیں:
محبت میں ایک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
عربی میں ’طغیان‘ کے معنی سرکشی کرنے اور اپنی حدود سے باہر آنے کے ہیں، چونکہ دریا بھی اپنے کناروں سے چھلک اٹھتا ہے، لہٰذا اس کا یہ عمل ’طغیان‘ کہلاتا ہے۔
اس ’طغیان‘ کا ہم جنس ایک لفظ ’طاغوت‘ ہے۔ ’طاغوت‘ کا اطلاق اُس گمراہ اور سرکش پر ہوتا ہے جو اللہ کی قائم کردہ حدود سے باہر نکل جاتا ہے۔

تالاب میں پہلا لفظ ’تال‘ سنسکرت اور دوسرا لفظ ’آب‘ فارسی کا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دریا کا چڑھاؤ اور ندی نالوں میں پانی کا تیز بہاؤ ’سیلاب‘ کہلاتا ہے۔ لفظ ’سیلاب‘ کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ غور کریں تو یہ دو لفظوں ’سیل‘ اور ’آب‘ سے مرکب ہے۔ یوں ’سیلاب‘ کے لفظی معنی ’پانی کا ریلا‘ ہیں۔
یہاں اعتراض یہ ہے کہ ’سیلاب‘ کا جُز اول ’سیل‘ عربی الاصل ہے، اس کے معنی ہی ’پانی کا ریلا‘ کے ہیں، ایسے میں اس ’سیل‘ کے ساتھ ’آب‘ کا استعمال بے جا ہے۔ 
اگر یہ اعتراض درست تسلیم کیا جائے تو پھر لفظ ’تالاب‘ کا کیا جواب ہے۔ یہ بھی دو لفظوں ’تال‘ اور ’میل‘ مرکب ہے۔ اس میں پہلا لفظ ’تال‘ سنسکرت اور دوسرا لفظ ’آب‘ فارسی کا ہے۔ پھر مطلق ’تال‘ کا اطلاق جوہڑ اور جھیل دونوں پر ہوتا ہے۔
اس تال کو ’نینی تال‘ کے نام سے سمجھ سکتے ہیں جو ہمالیہ کے دامن میں واقع مشہور جھیل ہے اور اس جھیل ہی کی نسبت سے شہر کا نام بھی ’نینی تال‘ پڑ گیا ہے۔
خیر سوال یہ ہے کہ اگر ’تال‘ اپنی جگہ مکمل ابلاغ کی صلاحیت رکھتا ہے تو پھر اس کے ساتھ ’آب‘ کا لاحقہ لگا کر اسے ’تالاب‘ کیوں پکارا جائے۔   
سچ یہ ہے کہ لفظی مباحث بیشک ’سیلاب اور تالاب‘ کو نادرست قرار دیں مگر حقیقت کی دنیا میں ’سیل‘ اور ’تال‘ جداگانہ اور بصورت ’سیلاب‘ اور ’تالاب‘ درست ہیں۔ اس ضمن میں غیر ضروری بحث وقت کا ضیاع ہے۔

دریا کا چڑھاؤ اور ندی نالوں میں پانی کا تیز بہاؤ ’سیلاب‘ کہلاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عجیب بات یہ ہے کہ بعض ایسے افراد بھی ہیں جو ’سیلاب‘ کو پانی کے تیز بہاؤ کے معنی میں تو درست سمجھتے ہیں، مگر اس ترکیب کا استعمال کسی اور صورت کے لیے روا نہیں جانتے۔ مثلاً ان کے نزدیک ’سیلابِ رنگ و نور‘ کی ترکیب درست نہیں اسے ’سیلِ رنگ و نور‘ ہونا چاہیے۔ 
ہمارے نزدیک یہ معاملہ بھی بال کی کھال اتارنے جیسا ہے اس لیے کہ یہاں ’سیلاب‘ کو ’سیل‘ کہہ دینے سے بھی صورتحال میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئے گی۔
بات یہ ہے کہ بعض صورتوں میں ’سیلاب‘ اپنے لفظی معنی کے برعکس کنایتاً کثرت اور ہجوم کے معنی دیتا ہے۔ اس بات کو میرزا غالب کے شعر سے سمجھیں جو مصیبتوں کے ہجوم کو ’سیلاب بلا‘ پکار رہے ہیں:
آئے ہے بیکسیِ عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا مرے بعد

شیئر: