Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکندرِاعظم کے ہاتھوں استخر کی تباہی 

تین سو قبل مسیح میں وفات پا جانے والا ’سکندر‘، یونانی ریاست ’مقدونیہ‘ کا فرمانروا تھا (فوٹو: انسائیکلوپیڈیا برٹینکا)
قدیم ایران پر حکمرانی کرنے والوں میں سے ’پیشدادی، کیانی، ہخامنشی اور ساسانی‘ خاندان کو افسانوی شہرت حاصل ہے۔ ’دارا سوم‘ اس خاندان کا آخری چراغ تھا جسے یونانی آندھی نے گُل کردیا۔ یوں سائرس اعظم کے زورِ بازو سے قائم ہونے والی عظیم ہخامنشی سلطنت سکندراعظم کے ہاتھوں پیوندِ خاک ہوگئی۔   
’اردشیر‘ کا بیٹا ’دارا سوم‘ شہر بابل سے تعلق رکھنے والی ’کسمرتی دین‘ کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ سکندر کے ہاتھوں دارا کی شکست اور دارالسلطنت ’استخر‘ کی تباہی نے اہل فارس کی اجتماعی نفسیات کو شدید متاثر کیا۔ قبل مسیح میں رونما ہونے والے اس حادثے کے اثرات آج بھی فارسی ادب میں موجود ہیں۔
چوں کہ ’دارا‘ غیر معمولی شان و شوکت کا حامل تھا، اس لیے ’دارا‘ کا لفظ ’حاکم و مالک‘ کا مترادف قرار پایا، جب کہ مالدار و ثروت مند کو مجازاً ’دارا‘ کہا گیا۔ 
اپنی شاہانہ نسبت کے سبب ایران اور اس ملحقہ پاکستانی علاقوں میں ’دارا‘ آج بھی ایک عام نام ہے۔ غالباً اَسی کی دہائی میں ’دارا بلوچ‘ کے نام سے پاکستان میں ایک فلم بھی سنیما کی زینت بن چکی ہے۔  
اب ’سکندر‘ کی بات کرتے ہیں۔ تین سو قبل مسیح میں وفات پا جانے والا ’سکندر‘، یونانی ریاست ’مقدونیہ‘ کا فرمانروا تھا۔ اس نے یورپ و ایشیا کے بڑے خطے پر اپنی سلطنت قائم کرلی تھی۔

سائرس اعظم کے زورِ بازو سے قائم ہونے والی عظیم ہخامنشی سلطنت سکندراعظم کے ہاتھوں پیوندِ خاک ہوگئی (فوٹو: انسائیکلوپیڈیا برٹینکا)

یونانی و ایرانی فرمارواؤں کے درمیان ہونے والی جنگ نے ’دارا و سکندر‘ ہی نہیں بلکہ ان سے متعلق کرداروں کو بھی افسانوی حیثیت عطا کردی ہے۔ 
’دارا و سکندر‘ ایک طرف رزم آرائی اور دوسری جانب دنیا کی بے ثباتی کا استعارہ بن چکے ہیں۔ اس بات کو ’حیدر علی آتش‘ کے شعر سے سمجھیں: 
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا 
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے 
سکندر کے ہاتھوں ’دارا‘ کی شکست اور عظیم سلطنت کی تباہی ایک درد ناک سانحہ تھا۔ اہل ایران نے اس درد کا مداوا ایک انوکھے طریقے سے کیا، وہ یہ کہ ایک روایت وضع کی گئی جس کے مطابق سکندر کا باپ ’فلپس‘ نسلاً ایرانی قرار پایا، جو بچپن میں ایران سے یونان پہنچا اور اپنی بلند حوصلگی سے مقدونیہ کے تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ اس پُر فریب کہانی کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ایرانیوں کا یہ دُکھ جاتا رہا کہ ان کی سلطنت ایک یونانی کے ہاتھوں تباہ ہوئی ہے۔ 
ایرانی روایت ہی میں ’سکندر‘ کو ’آئینہ‘ کا موجد قرار دیا گیا ہے۔ اس ایجاد کو بھی ادب پاروں میں جگہ ملی اور اس آئینہ کی نسبت سے ’آئینہِ سکندر‘ کی ترکیب وضع ہوئی۔ اس بات کے اثبات میں ’عبد الہادی وفا‘ کا شعر ملاحظہ کریں جن کا کہنا ہے کہ: 
حُسن عمل کی داد سکندر کو مل گئی 
وہ رشکِ آئینہ ہے طلب گار آئینہ 
سکندر جب ہندوستان کی جانب بڑھا تو دریائے جہلم کے کنارے اس کا سامنا ’راجا پورس‘ سے ہوا۔ کہنے کو تو پورس یہ جنگ ہار گیا مگر اپنی بے جگری کے سبب مزاحمت کی علامت بن گیا۔ اس بات کو ’دوجیندر دوج‘ کے شعر سے سمجھیں:  
ایک پورس بھی تو رہتا ہے ہمارے اندر 
جو سکندر کو سکندر نہیں رہنے دیتا 

’دارا و سکندر‘ ایک طرف رزم آرائی اور دوسری جانب دنیا کی بے ثباتی کا استعارہ بن چکے ہیں (فوٹو: وکی میڈیا کامنز)

پورس و سکندر کی اس جنگ نے تاریخ دانوں اور ادب پاروں کے لیے جو کچھ مُہیا کیا اس میں ’پورس کے ہاتھی‘ بھی شامل ہیں، جو اپنی ہی فوج کو روند کر تاریخ میں اپنوں پر تباہی ڈھانے کا استعارہ بن چکے ہیں۔ بقول فضل الٰہی بہار: 
پورس کے ہاتھیوں کے سبھی گول کٹ گئے 
جذبے مرے خلوص کے روشن چٹان تھے 
بعض مفسرین نے ایک اور تاریخی کردار ’ذوالقرنین‘ کی نسبت بھی ’سکندر‘ کی طرف کی ہے، یہی وجہ ہے کہ یاجوج و ماجوج کا راستہ روکنے کے لیے بنائی جانے والی فولادی دیوار سکندر ہی کی نسبت سے ’سدِ سکندر‘ کہلاتی ہے۔ دیکھیں کلاسیکی شاعر ’امام بخش ناسخ‘ کیا کہہ رہے ہیں:  
یار نے خط میں جو لکھا ہے کہ نہ آنا ہرگز 
ہو گیا میرے لیے ’سدِ سکندر‘ کاغذ 
سکندر سے منسوب عظیم الشان کارناموں کے سبب ہی اسے ’سکندرِ اعظم /  Alexander the great‘ پکارا جاتا ہے۔ سکندر کی یہی عظمت ادب میں کئی ایک محاوروں کی تشکیل کا سبب بنی، جن میں سب سے مشہور محاورہ ’قسمت کا سکندر‘ ہے۔ یہ قسمت کے دھنی ایسے شخص کو کہتے ہیں جس پر کامیابیوں کے باب کُھلتے چلے جاتے ہیں۔ اب اس بات کو ’پورن سنگھ ہنر‘ کے شعر سے سمجھیں: 
ہر شخص مقدر کا سکندر تو نہیں ہے 
ہر اک کو غمِ عشق میسر تو نہیں ہے

پورس و سکندر کی جنگ نے تاریخ دانوں اور ادب پاروں کے لیے جو کچھ مُہیا کیا اس میں ’پورس کے ہاتھی‘ بھی شامل ہیں (فوٹو: وکی میڈیا)

یہاں تک پہنچ کر اب ’سکندر‘ کے نام پر بات کریں گے۔ اس نام نے اُس وقت الجھن کا سامان کیا جب اسے بجائے ’سکندر‘ کے ’اسکندر‘ لکھا دیکھا۔ یاد رہے کہ پاکستان کے پہلے صدر کا نام بھی ’اسکندر مرزا‘ تھا۔ بہرحال کھود کُرید پر معلوم ہوا کہ سکندر کو عربی کے ’الاِسکندر‘ سے نسبت ہے، جب کہ ’الاِسکندر‘ کی اصل یونانی کا ’اَلَکْسَنْدروس‘ ہے۔ 
’ڈاکٹر ف۔عبدالرحیم‘ کے مطابق ’اَلَکْسَنْدروس‘ میں ’وس‘ رفع کی علامت ہے، اس کو حذف کرنے کے بعد ’الکسندر‘ باقی رہتا ہے۔ جب یہ عربی میں داخل ہوا تو اس میں تھوڑی سی تقدیم و تاخیر واقع ہوئی، چنانچہ ’س‘ کو ’ک‘ سے پہلے کردیا گیا۔ اس تبدیلی کی وجہ سے ’اَلَکسندر‘ بدل کر ’السکندر‘ ہوگیا۔ چوں کہ ’س‘ ساکن حرف ہے، اور عربی میں کسی بھی ساکن حرف سے لفظ کی ابتداء ناممکن ہے، لہٰذا اس مشکل کو رفع کرنے کے لیے حسب عادت ’السکندر‘ میں ’الف‘ کا اضافہ کرکے اسے ’الاِسکندر‘ بنا دیا گیا۔ بعد ازاں یہی ’الاِسکندر‘ فارسی اور اردو میں ’اسکندر اور سکندر‘ کی صورت میں داخل ہوا۔ اب اس ’اسکندر‘ کو علامہ اقبال کے ہاں دیکھیں جو کہہ گئے ہیں: 
اسکندر و چنگيز کے ہاتھوں سے جہاں ميں 
سو بار ہوئی حضرت انساں کی قبا چاک

شیئر: