Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وفاقی کابینہ کی تشکیل اور حلف برداری میں تعطل کیوں ہورہا ہے؟

خواجہ آصف نے تصدیق کی کہ نئی کابینہ میں بلاول بھٹو وزیرخارجہ ہوں گے (فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم شہباز شریف کو حلف اٹھائے سات دن سے زائد ہو گئے ہیں مگر وہ ابھی تک اپنی کابینہ کا اعلان نہیں کر پائے ہیں جس کے باعث نئی حکومت کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کی فضا قائم ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک سابقہ فیصلے کی روشنی میں وفاقی حکومت کی جو تعریف کی گئی ہے اس میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ شامل ہوتے ہیں اور ایسے تمام ایگزیکٹو فیصلے جنہیں وفاقی حکومت کی منظوری درکار ہوتی ہے وہ وزیراعظم اور کابینہ دونوں کی منظوری سے ہی ہوسکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی ترجمان اور متوقع وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے سوموار کو بھی اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ نئی کابینہ کے نام کچھ دیر میں بتائے جائیں گے اور شام کو ہی کابینہ حلف اٹھائیں، مگر تھوڑی دیر بعد ہی خبر آئی کہ وفاقی کابینہ کی تقریب حلف برداری ملتوی ہوگئی ہے اور حلف برداری ایک دو روز میں ہو گی۔
ایوان صدر کے ایک افسر کے مطابق صدر مملکت عارف علوی نے وفاقی کابینہ سے حلف لینے سے معذرت کرلی ہے جس کے بعد ایوان صدر میں سوموار کو ہونے والی وفاقی کابینہ کی تقریب حلف برداری ملتوی ہوگئی ہے۔
ان کے مطابق  صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے معذرت کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی وفاقی کابینہ کے ارکان سے حلف لیں گے۔
نئی کابینہ میں بلاول وزیرخارجہ ہوں گے : خواجہ آصف
رات گئے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے بتایا کہ حلف برداری کی تقریب منگل کو دوپہر تک ہوجائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ایک دو مسائل تھے جن کے احترام میں تقریب سوموار کو نہیں ہو سکی۔
خواجہ آصف نے تصدیق کی کہ نئی کابینہ میں بلاول بھٹو وزیرخارجہ ہوں گے، جبکہ احسن اقبال وفاقی وزیر منصوبہ بندی، مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ  اور رانا ثنا اللہ وزیرداخلہ ہوں گے۔
مقامی میڈیا میں کابینہ کے دیگر متوقع ارکان کے نام بھی گردش کرتے رہے جن کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی۔
پیپلز پارٹی رہنما خورشید شاہ کے مطابق نئی وفاقی کابینہ 36 رکنی ہوگی جس میں  پیپلزپارٹی کے 11، ن لیگ کے 14 اور جے یو آئی کے 4 وزرا حلف اٹھائیں گے اور 7 وزارتیں دیگر اتحادی جماعتوں کو دی جائیں گی، تاہم کس جماعت  کے کس رہنما کو کونسی وزارت ملے گی اس حوالے سے حتمی نام سامنے نہیں آئے ہیں۔

ایم کیو ایم  کی کابینہ  میں شمولیت یا عدم شمولیت کا واضح فیصلہ ابھی سامنے نہیں آیا (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب حکومتی اتحادی بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے واضح کیا ہے کہ ان کی جماعت ابھی وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی، ان کے مطابق ’بلوچستان میں آئے روز عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔‘
خیبر پختونخواہ سے اے این پی نے بھی وزارت نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ کراچی سے ایم کیو ایم  کی کابینہ  میں شمولیت یا عدم شمولیت کا واضح فیصلہ ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔
صدر مملکت کی طرف سے عدم تعاون
دوسری جانب صدر عارف علوی کی جانب سے وزیراعظم کا حلف اٹھانے سے معذرت کے بعد وفاقی کابینہ کا حلف لینے سے بھی معذرت کر لی گئی ہے۔
اس سے قبل اتوار کو انہوں نے وفاقی حکومت کی سفارش پر پنجاب کے گورنر عمر سرفراز چیمہ کو بھی برطرف کرنے سے گریز کیا تھا اور انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی جس کے بعد وہاں نو منتخب وزیراعلی حمزہ شہباز کی حلف برداری بھی تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔
اس صورتحال میں حکومتی اتحاد صدر مملکت کی جانب سے ڈالی جانے والی رکاوٹوں پر تشویش کا شکار ہے، تاہم فی الحال اس حوالے سے بے بسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے ایک رہنما نے کہا کہ وہ صدر کے مواخذے کے حوالے سے قانونی نکات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صدر کے مواخذے کے لیے حکومتی اتحاد کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دو تہائی ارکان کی حمایت درکار ہے جو ابھی تک انہیں دستیاب نہیں ہے۔

صدر مملکت کو گھر بھیجنے کا واحد ذریعہ ان کا مواخذہ ہی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر قانون خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اپنا چیئرمین سینیٹ تو لا سکتی ہے، تاہم اسے قائم مقام صدر بنانے کےلیے صدر مملکت عارف علوی کو جبری رخصت پر نہیں بھیج سکتی۔
صدر مملکت کو گھر بھیجنے کا واحد ذریعہ ان کا مواخذہ ہی ہے۔ آئینی امور کے ماہر کامران مرتضی نے اردو نیوز کو بتایا کہ صدر کا عہدہ پاکستان میں انتہائی احترام کا حامل آئینی عہدہ ہے جس کے کسی اقدام کے خلاف عدالت بھی نہیں جایا جا سکتا۔
’ملک میں تمام کام صدر کے نام سے ہوتے ہیں، تاہم وزیراعظم کی ایڈوائس ضروری ہوتی ہے۔ صدر کو جبری رخصت پر نہیں بھیجا جا سکتا۔ ان کا صرف مواخذہ ہی ممکن ہے۔‘

شیئر: