Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہلی میں پُرتشدد واقعات کے بعد مساجد کی ڈرونز کے ذریعے نگرانی

پولیس نے مرکزی ملزموں انصار اور اسلم سمیت 24 افراد کو گرفتار کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
نئی دہلی کے علاقے جہانگیر پوری میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد پولیس ڈرونز کے ذریعے جامع مسجد اور مسجد حوض قاضی کے علاقوں کی نگرانی کر رہی ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق منگل کو دہلی پولیس نے بتایا کہ ’وہ ڈرونز کے ذریعے ان علاقوں کی نگرانی کر رہی ہے۔‘
اس سے قبل دہلی کے جنوبی علاقوں جسولہ اور جامع نگر میں ڈرونز کے ذریعے نگرانی ہوتی تھی۔
جہانگیر پوری میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد پولیس نے مرکزی ملزموں انصار اور اسلم سمیت 24 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔
گرفتار افراد کا تعلق دونوں مذہبی گروہوں سے ہیں۔ واقعے کی تحقیقات کے لیے پولیس نے ایک 10 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
پولیس نے واقعے سے متعلق محکمہ داخلہ کو رپورٹ پیش کردی ہے۔
10 اپریل کو رام نومی کے تہوار کے بعد گجرات، مدھیہ پردیش، جھاڑکھنڈ، راجستھان اور مغربی بنگال میں مذہبی فسادات کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
مذہبی فسادات کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ درخواست گزاروں نے قومی تحقیقاتی ایجنسی سے ان واقعات کی ’غیر جانبدرانہ‘ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب اترپردیش کے وزیراعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ کی سربراہی میں سکیورٹی کے حوالے سے ایک اجلاس منعقد ہوا۔

جھڑپ میں پولیس کے چھ افسران بھی زخمی ہوگئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

آئندہ ماہ عیدالفطر اور اکشایا تریتیا کے تہوار ایک ہی دن ہونے کا امکان ہے۔
اترپردیش کی حکومت کا کہنا ہے کہ مذہبی جلوسوں کے لیے باقاعدہ اجازت لینا ہوگی۔ منتظمین امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے حلف نامہ جمع کرائیں گے۔
سنیچر کو نئی دہلی کے علاقے جہانگیر پوری میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تشدد کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب مبینہ طور پر مذہبی جلوس ہنومان جینتی پر پتھراؤ کیا گیا۔
اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے اتورا کو کہا تھا کہ ’انڈیا کی خوش حالی اور پُرامن ملک ہونے کو ہضم نہ کرنے والے عناصر اب ملک کی کثیرالثقافتی شناخت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔’

شیئر: