Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین آرمی نے کشمیر میں افطار کی تصاویر کیوں ڈیلیٹ کیں؟

انڈین آرمی کی جانب سے ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ (تصویر: پی آر او ڈیفنس جموں/ٹوئٹر)
رواں ہفتے 21 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع ڈوڈہ میں انڈین آرمی کی جانب سے علاقہ مکینوں کے لیے ایک افطار کا انتظام کیا گیا تھا اور اس افطارکی کچھ تصاویر بھی آرمی سے منسلک ایک اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی گئیں تھیں۔
جمعرات کو ایک ٹویٹ کے ساتھ منسلک چار تصاویر میں مسلمانوں کو انڈین آرمی کے فوجیوں کے ساتھ روزہ کھولتے اور نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا تھا۔
اس ٹویٹ کے ساتھ انڈین آرمی سے منسلک سرکاری اکاؤنٹ ’پی آر او ڈیفنس جموں‘ نے لکھا کہ ’سیکولر کلچر کو زندہ رکھتے ہوئے ضلع ڈوڈہ کے علاقے ارنوڑا میں انڈین آرمی کی جانب سے افطار کا انتظام کیا گیا تھا۔‘
لیکن پھر دائیں بازو کی جماعت کے حامیوں کی جانب سے تنقید کے بعد اس اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی گئیں یہ تصاویر ڈیلیٹ کردی گئیں۔
سوشل میڈیا پر انڈین صارفین کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ کرنے پر افسوس کا اظہار کررہی ہے۔
محمد ابوذر چوہدری نامی صارف نے اس ٹویٹ کے ڈیلیٹ ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹویٹ ایک دائیں بازو کے انڈین صحافی سریش چوہانکے کی ایک کوٹ ٹویٹ کے بعد ڈیلیٹ کی گئی تھی۔
انڈین آرمی سے منسلک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانے والی ٹویٹ کو کوٹ کرکے سریش چوہانکے نے ہندی میں لکھا تھا کہ ’اب یہ بیماری انڈین آرمی میں بھی داخل ہوگئی ہے۔‘
محمد ابوذر چوہدری نے ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کے عمل کو ’شرمناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’انہیں (انڈین آرمی) کو سریش چوہانکے کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے اور وضاحت کرنی چاہیے کہ یہ ٹویٹ کیوں ڈیلیٹ کی گئی۔‘

فرینا فضل نامی صارف نے کہا کہ ’ہندتوا گینگ سے ڈر کر انڈین آرمی کی میزبانی میں افظار کی تصاویر ڈیلیٹ کردی گئیں۔‘
انہوں نے لکھا ’اسے داخلی دہشت گردی کہتے ہیں۔‘

پروفیسر اشوک سوین نے آرمی پر طنز کرتے ہوئے کہا ’اگر انڈین آرمی ہندو دائیں بازو کے ڈر سے افطار کی تصاویر ڈیلیٹ کررہی ہے تو سوچیں وہ پاکستانی یا چینی آرمی کا مقابلہ کیسے کرے گی؟‘

انڈٰین صحافی راجدیپ سردیسائی بھی اس عمل پر غصے میں نظر آئے۔ انہوں نے لکھا ’ہمارے مرد کسی سے ڈرے ہوئے ہیں؟‘

ایک اور انڈین صحافی اشیش کمار سنگھ نے لکھا ’انڈین آرمی کی افطار پوسٹ پر جو بحث ہورہی تھی وہ گھناؤنی تھی لیکن ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کے بجائے انڈین آرمی اس پر قائم رہی ہوتی تو ہم آہنگی اور اتحاد کے دشمن اپنی قدرتی موت مرجاتے۔‘

ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کے بعد اب تک انڈین آرمی یا سرکاری اہلکار کی جانب سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔

شیئر: