Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی‘

ناصر کاظمی کی اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک تصویر۔ (فوٹو: فلکر)
ناصر کاظمی اور احمد مشتاق کا نام یاری دوستی کے سلسلے میں ہی ایک ساتھ نہیں آتا، شاعری کے تذکرے میں بھی دونوں کا حوالہ اکٹھے آتا ہے۔ ایک کے دوسرے سے متاثر ہونے کا ایک بلیغ حوالہ علامہ اقبال کا وہ مصرع بھی ہے جو احمد مشتاق نے اپنی پہلی کتاب ’مجموعہ‘، ناصر کو پیش کرتے ہوئے لکھا:
 تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی
یہ تو رہی پہلی کتاب کی بات۔ دوسری کتاب ’گردِ مہتاب‘ کا نام، ناصر کے اس شعر سے مستعار ہے:
نیند آتی نہیں تو صبح تلک
گردِ مہتاب کا سفر دیکھو
ناصر نے احمد مشتاق کو کس طرح انسپائر کیا اس کی طرف دونوں کے عزیز دوست، انتظار حسین نے بھی اشارہ کیا ہے: ’احمد مشتاق نے امرتسر میں باپ سے داغ دہلوی کا نام سنا تھا۔ لاہور میں آ کر ناصر کاظمی کو دیکھا۔ داغ والی غزل سے جی بھر گیا۔ نئی غزل کی طرف طبعیت مائل ہوئی۔ ایسے شعر وارد ہونے لگے:
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
یاروں نے اس شعر کو عجب جانا، ناصر کاظمی نے اس میں تھیل کا فلسفہ ایسا نکالا کہ شعر کو پر لگ گئے اور ساتھ میں احمد مشتاق کی غزل کو بھی۔‘
پر لگ گئے سے احمد مشتاق کا شعر یاد آ گیا:
خیر بدنام  تو  پہلے  بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو
 ناصر کاظمی زمانے کی رفتار پہچانتے تھے۔ اس کے ادلتے بدلتے مزاج پر ان کی گہری نظر تھی۔ زمانے میں سرعت سے تغیر آیا اور انسان فطرت سے دور ہونے لگا تو ناصر کو میر انیس کی طرح محسوس ہوا:
 اب یاں کی زمیں اور فلک اور ہُوا

اس ماحول میں انھیں پرانا دور جو اتنا زیادہ پرانا بھی نہیں تھا یاد آتا ہے، وہ قیام پاکستان کے بعد کے دنوں کو یاد کرتے ہیں تو احمد مشتاق سے دوستی قائم ہونے کی بنیاد بھی بتاتے ہیں اور اپنی تحریر میں ان کے تین شعر نقل کرتے ہیں: ’ادیبوں کے پاس نہ کاریں تھیں، نہ فرج اور ٹیلی ویژن سیٹ، نہ بڑے ہوٹلوں کے بل ادا کرنے کے لیے رقم تھی۔ ان کی جیب میں چند آنے اور ایک معمولی سا قلم ہوتا تھا اور ایک کاغذ پر تازہ تحریر ہوتی تھی۔‘
یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا
 رات کی خاموشی میں جمع ہونے والے یہ ہم عصر اپنی آنکھوں میں رفتگاں کے خواب اور مستقبل کا سورج لے کر گھر سے نکلتے تھے اور لاہور کے چائے خانوں، کتب خانوں اور گلیوں میں ستاروں کی طرح گردش کرتے نظر آتے تھے، مگر ان کی روشنی نئے ادب کے معماروں اور مشاعرے کے شاعروں سے الگ تھی۔ یہ تنہائی میں چھپ کر رو لیتے تھے مگر رقت بھری رومانوی تحریریں نہیں لکھتے تھے، نہ بال بکھرا کر محفلِ ادب میں آتے تھے۔
انہی دنوں ایک لڑکا مجھے ایک چائے خانے میں نظر آیا جس کی آنکھوں میں بیداری کی تھکن اور مستقبل کے خواب تھے۔ سفید قمیص سفید شلوار پہنے ہوئے تھا اور وہ بال بنا کر آیا تھا۔
اجنبی رہزنوں نے لوٹ لیے
کچھ مسافر ترے دیار سے دُور
جب میں نے اس سے یہ شعر سنا تو یوں لگا جیسے یہ میری اپنی کہانی ہے۔ احمد مشتاق سے میری دوستی کی بنیاد یہ ہے کہ وہ گھر سے ایک شاعر کا دل لے کر آیا تھا۔
اب رات تھی اور گلی میں رُکنا
اس وقت عجیب سا لگا تھا
یہ گلی، جس میں چند ہمعصر چلتے چلتے رک کر ایک جگہ ملے تھے، قیام پاکستان کے بعد ایک نئے طرزِ احساس کی علامت ہے۔‘
ناصر کاظمی کے ساتھ گہری دوستی اور ان کے کلام سے ربطِ خاطر اپنی جگہ لیکن شاعری میں احمد مشتاق نے اپنی منفرد آواز پیدا کی۔ پچاس کی دہائی کے آخری برسوں میں ممتاز ادبی جریدے ’سویرا‘ میں ان کی غزلیں شائع ہوئیں تو اس سے پہلے یہ مختصر نوٹ قاری کو پڑھنے کو ملا:
’کھلے کھیتوں میں کھڑے گھنے درخت کے سائے میں تو گندم، کپاس بھی نہیں اُگتی، اس کے بالکل قریب کسی نئے درخت کا پروان چڑھنا تو دور کی بات ہے۔ ناصر کاظمی کی گھنی آواز کا جادو بہت سی نورس آوازوں کے سر پر چڑھ کر بول رہا ہے لیکن احمد مشتاق ہے کہ ناصر سے قریب ترین رہتے ہوئے بھی اپنی الگ مستقیم آواز کا مالک ہے۔ آج بہت کم لوگ ایسے ہیں، جنہیں فن اور اپنے فن کار ہونے کے ناموس کا اتنا احساس ہو گا، جتنا احمد مشتاق کو ہے۔‘

 اس تحریر کے تقریباً پچپن سال بعد معروف کالم نویس اور دانش ور وجاہت مسعود نے اس سے ملتی جلتی بات اس رنگ میں کہی:
احمد مشتاق گزشتہ چھ دہائیوں سے غزل کہہ رہے ہیں۔ ناصر کاظمی کا ہم صفیر ہونا اور اپنی الگ آواز قائم رکھنا، اسد اللہ خاں قیامت تھا مگر احمد مشتاق نے بہت سلیقے اور ہنر سے یہ کارِآسماں کیا۔ کم لکھا مگر جو احمد مشتاق نے لکھا، کوئی کیا لکھے گا۔ تین عشرے قبل امریکا چلے گئے تھے۔ اسے اردو شعر کا معجزہ کہا جائے گا کہ مٹی سے دور بسیرا کرنے کے باوجود احمد مشتاق کا نام ناصر کاظمی اور منیر نیازی کا ہم قدم چلا آرہا ہے۔
 ڈاکٹر ناہید قاسمی نے اپنی کتاب ’ ناصر کاظمی: شخصیت و فن ‘ میں احمد مشتاق کو ناصر کاظمی کے فن کا صحیح وارث قرار دیا ہے۔ ان کے بقول ’جس طرح ناصر نے میر سے اقبال و فراق تک غزل کی روایت کی سب روشنیاں اپنے اندر جذب کرلی تھیں۔ بعینہ احمد مشتاق نے بھی غزل کی اس روایت کا احترام کیا ہے اور اس روایت میں ناصر کاظمی کو شامل کرکے اسے قبول کیا ہے۔
 ڈاکٹر حسن رضوی نے’ وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر ‘میں لکھا:
ناصر کاظمی نے شاعری میں اپنا جانشین احمد مشتاق کو قرار دیا تھا۔
 ادبی معاملات پر بات کرتے ہوئے ناصر کو بڑے نادر نکتے سوجھتے۔ ہم عصر کون ہوتا ہے اس کے ایک مفہوم سے تو ہم آپ سبھی واقف ہیں۔ لیکن ناصر کے ذہن میں اس کا تصور اپنے عہد کے تنگنائے سے نکل کر زمانوں تک پھیل جاتا ہے۔
 وہ میرا بائی اور میرتقی میر کو ہم عصر کہتے تھے اور ان کے بقول ’میں جب تازہ غزل کہتا ہوں تو پھر میر کو بھی سناتا ہوں اور احمد مشتاق کو بھی۔
ناصر کی غزل کی بات ہے تو ان کی ایک ایسی غزل کا ذکر ہوجائے جو بقول احمد مشتاق انہوں نے مال روڈ پر کمرشل بلڈنگ میں واقع ڈینز ریستوران میں سنائی تھی:
 کون اس راہ سے گزرتا ہے
 دل یونہی انتظار کرتا ہے
 دیکھ کر بھی نہ دیکھنے والے
 دل تجھے دیکھ دیکھ ڈرتا ہے
 شہرِ گُل میں کٹی ہے ساری رات
 دیکھیے دن کہاں گزرتا ہے
 دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
 کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے
 دل تو میرا اداس ہے ناصر
 شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

گزرے پچاس برسوں میں ناصر کی یاد احمد مشتاق کے ساتھ مسلسل رہی ہے۔ (فائل فوٹو)

احمد مشتاق کے حافطے میں جن حاضرین کا نام آج بھی روشن ہے، ان کے نام یہ ہیں: مظفر علی سید، انتظار حسین، صفدر میر، حفیظ ہوشیار پوری، ڈاکٹر محمد اجمل ، ڈاکٹر آفتاب احمد۔ غالب احمد۔
معروف نقاد سہیل احمد خان نے اپنے مضمون ’اداسی کی تہذیب ‘ میں بتایا ہے کہ ایک بار ٹی ہاؤس میں ناصر نے احمد مشتاق کا یہ شعر پڑھا:
 خالی شاخیں بلا رہی ہیں
پھولو، آؤ کہاں  گئے ہو
اور اس کے بعد ملول لہجے میں بولے:
’یہ شعر ان ماؤں کا نوحہ ہے جن کی گودیں خالی ہوگئی ہیں۔‘
 ممتاز نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کے احمد مشتاق کو فراق سے بہتر شاعر قرار دینے کے بیان پر بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ انتظار حسین نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ اصل میں فاروقی صاحب نے ناصر کاظمی اور احمد مشتاق دونوں کو فراق سے اچھا شاعر کہا تھا لیکن ٹی ہاؤس میں احمد مشتاق کے مخالفین نے انہیں رگیدنے کے لیے ناصر کا نام نکال کر یہ مشہور کردیا کہ احمد مشتاق کو ہی فراق سے اچھا شاعر بتایا گیا ہے۔
انتظار صاحب کی بات کی تصدیق فاروقی صاحب کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے:
’ناصر کاظمی اور احمد مشتاق دونوں ہی غزل کے فن کے معاملے میں فراق صاحب سے بہتر ہیں۔‘
ناصر کاظمی کے احمد مشتاق سے تعلق کیسے استوار ہوا اس کے بارے میں آپ نے اوپر پڑھ لیا۔ اب بڑھتے ہیں احمد مشتاق کی ناصر سے جڑی یادوں کی طرف جو انہوں نے فون پر میرے ساتھ شئیر کیں:
’ناصر کاظمی سے پہلی ملاقات 1949 میں نسبت روڈ پر ہوئی، جس میں شہزاد احمد بھی موجود تھا۔ اس زمانے میں ناصر کا رنگ چمکتا ہوا اور تابناک تھا۔ اس نے بڑی آسودگی دیکھی تھی، لیکن پاکستان میں تنگ دستی کی وجہ سے اس کی شخصیت پہلے والی نہ رہی، ڈائری میں ایک جگہ اس نے پانی سے ناشتہ کرنے کا بھی لکھا ہے۔ ناصر سے دوستی ہوئی تو انتظار حسین سے بھی دوستی ہوگئی۔ اس کے بعد ہمارا بہت سا وقت اکٹھے گزرنے لگا۔ سینما دیکھنے بھی جانا رہتا۔ کچہری روڈ پر پرانی انارکلی کے تھانے کے قریب ہی ناصر کا گھر تھا جس کے ایک کمرے میں ناصر رہتا تھا۔ ادھر بھی اس سے ملنا رہتا۔ ٹی ہاؤس، کافی ہاؤس، میٹرو، چائینز اور ڈین میں بھی ملاقات ہوتی۔ مٹرگشت بھی کرتے۔ میں داتا دربار کے قریب میلہ رام مل میں کام کرتا تھا تو رات کو ناصر اور دیگر دوست میری ڈیوٹی ختم ہونے کے وقت وہاں آجاتے اور پھر ہم قریب ہی ایک ہوٹل میں جو ساری رات کھلا رہتا چائے پینےچلے جاتے۔‘
ناصر کاظمی سے آخری ملاقات، ہسپتال میں اس کے انتقال سے چند دن پہلے ہوئی، اس نے چھوٹی چھوٹی چار کاپیاں مجھے دیں اور کہا کہ ان میں میرا کلام ہے، اسے نقل کرکے چھپوا دینا۔ دیوان اسی پر مشتمل ہے۔
ناصر کے انتقال کی خبر ٹی ہاؤس کے باہر چسپاں تعزیتی نوٹس سے ملی جو جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، یوسف کامران نے لگایا تھا۔‘
انتظار حسین کے مطابق اس نوٹس پر ناصر کا یہ شعر رقم تھا:
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ

 ناصر کاظمی زمانے کی رفتار پہچانتے تھے۔ اس کے ادلتے بدلتے مزاج پر ان کی گہری نظر تھی۔ (فوٹو: وینٹیج پاکستان)

ناصر کاظمی جن دنوں بیمار تھے۔ جاوید شاہین کا پہلا شعری مجموعہ ’زخم مسلسل کی ہری شاخ‘ شائع ہوا ۔ لاہور میں پاک ٹی ہاؤس میں اس کی تقریب رونمائی سے پہلے، احمد مشتاق نے سہیل احمد خان سے کہا کہ چلو ہسپتال میں ناصر سے ملنے چلتے ہیں اور اسے کہتے ہیں اپنے تاثرات لکھ دے۔ ناصر نے جو رائے دی، اس کا پہلا جملہ تھا:
’جب میں پہلے پہل جاوید شاہین سے ملا تھا تو وہ ہرا بھرا لڑکا تھا، اب زخمِ مسلسل کی ہری شاخ میں تبدیل ہوگیا ہے۔‘
ناصر کاظمی کی اہلیہ نفیس اور مہذب خاتون تھیں۔ ناصر کاظمی کے دوست ان کا ذکر بہت اچھے لفظوں میں کرتے ہیں۔ احمد عقیل روبی نے’مجھے تو حیران کر گیا وہ‘ میں لکھا ہے کہ ایک دن ناصر نے ان سے کہا کہ تمھاری اور احمد مشتاق کی ریپوٹیشن میرے گھر میں بہت اچھی ہے۔ اس لیے رات دیر سے گھر جانے میں تم ساتھ ہو تو داخلہ آسان ہوجاتا ہے۔ 
احمد مشتاق طبعیت کے تیز تھے۔ دوسروں پر گرفت کرنے میں دوست دشمن کی تخصیص نہیں تھی۔ انتظارحسین کے بقول ’مشتاق ہمارا دوست بھی تھا اور ہمارا محتسب بھی۔ بس یوں سمجھیے کہ نقاد اور محتسب کے لیے ہم غیروں کے محتاج نہیں تھے۔ اس معاملہ میں ہم خود کفیل تھے۔ منڈلی کے اندر ہی یہ فریضہ ادا کرنے والے موجود تھے۔ سب سے بڑھ کر مشتاق تھا جو خاص طور پر میرے اور ناصر کے چال چلن پر نظر رکھتا تھا۔ اسے مستقل فکر رہتی تھی کہ اس کے یہ دو سادہ دل دوست شیطانوں کے بہکانے میں آجائیں گے۔‘
انتظار حسین نے ناصر کاظمی کے خاکے میں یہ بھی لکھا :’ایک وقت تھا کہ ناصر، مشتاق کے پنجے کی بہت تعریف کرتا تھا۔ مشتاق ہر اپنے پرائے کو پنجہ مارتا تھا اور ناصر داد دیتا تھا مگر مشتاق کے ناخن تیز ہوتے چلے گئے کہ خود ناصر کو اس پنچے سے شکایت رہنے لگی۔‘
ایوب کے مارشل لا کے بعد ناصر کاظمی، احمد مشتاق کے احتساب کی زد میں  آئے اور  ان سے  اس قدر زچ  ہوئے کہ پاک ٹی ہاؤس سے مال پر واقع  لارڈز ہوٹل ہجرت کرگئے لیکن جاتے جاتے ایک ایسا جملہ کہہ گئے کہ احمد مشتاق لاجواب ہوگئے۔
انتظار حسین کے بقول ’مارشل لا کیا آیا کہ ایک عسکری صاحب کو چھوڑ کر باقی سارے ادیبوں کی دیانت ہی مشتاق کی نظروں میں مشکوک ہوگئی۔ ادیب کو اس وقت کلمۂ حق کہنا چاہیے، یہ تھا مشتاق کا مطالبہ۔ اور سب سے بڑھ کر ناصر سے۔
ناصر نے اس کا وعظ بہت سنا۔ پھر کہا کہ ’مشتاق، میں تو ایک مرتبہ سچ بول کر کربلا میں سرکٹا چکا، اب تیری باری ہے۔‘
منیر احمد شیخ نے لکھا ہے کہ ناصر جب اپنے دوستوں سے ناراض ہوتا تو انہیں فوجی کمانڈروں کی طرح ڈانٹتا، احمد مشتاق اس کے لیے اکثر لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ بن جاتا تھا۔

احمد مشتاق ان معدودے چند شاعروں ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے ایوب خان کی آمریت کو روز اول سے قبول نہیں کیا تھا، اپنے قریبی دوستوں کے برعکس رائٹرز گلڈ سے بھی دور رہے اور مولانا صلاح الدین احمد اور محمد حسن عسکری کی راہ پر چلے جنھوں نے گلڈ کا حصہ بننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
ایوب خان اور فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی الیکشن میں بھی احمد مشتاق کی ہمدردیاں مادر ملت کے ساتھ تھیں۔ منیر نیازی نے ایک انٹرویو میں بتایا:
’محترمہ فاطمہ جناح، ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑ رہی تھیں۔ ادیب، مادر ملت کا کھلم کھلا ساتھ دینے سے کترا رہے تھے۔ احمد مشتاق نے مجھے بتایا کہ ہمارے دانشور کیسے ہیں کہ فاطمہ جناح کا ساتھ نہیں دے رہے اور وہ اکیلی رہ گئی ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ میری طرف سے محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں بیان لکھو۔ میرے دستخط کرنے کے بعد کچھ لوگوں کو کچھ حوصلہ ہوا چنانچہ بارہ تیرہ ادیبوں نے میرے بعد دستخط کر دیے۔ محرک میں تھا۔‘
ناصر کاظمی نے احمد مشتاق کے تقاضے پر تو ایوب خان کے خلاف کوئی پوزیشن نہیں لی لیکن وہ اس ڈکٹیٹر کو پسند نہیں کرتے تھے جب کہ ان کے دوستوں میں شیخ صلاح الدین اور حنیف رامے ، ایوب خان کے بڑے مداح تھے۔ ممتاز ادیب محمد سلیم الرحمٰن نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ چائنز لنچ ہوم میں شیخ صلاح الدین نے ایوب خان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے تو ناصر نے ان کے نقطہ نظر کو سختی سے رد کیا۔
ناصر کاظمی کو سیاست سے دلچسپی تو تھی لیکن وہ اس میں احمد مشتاق کی طرح ڈوبے نہیں تھے۔ حسن رضوی کے بقول ’وہ(ناصر) اکثر احمد مشتاق ہی سے سیاست کے بارے میں سنتے۔‘
احمد مشتاق نے بتایا کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کا ناصر کو گہرا صدمہ ہوا۔ اس پُرآشوب زمانے میں لکھی گئی ناصر کی یہ  غزل جس کا مطلع ہے:
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
 وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
احمد مشتاق کو پسند ہے لیکن مشرقی پاکستان کے پس منظر میں ناصر کی یہ غزل انہیں زیادہ اچھی لگتی ہے:
دھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنار
لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر
یہ کالے کوس کی پرہول رات ہے ساتھی
کہیں اماں نہ ملے گی تجھے کنارے پر
صدائیں آتی ہیں اُجڑے ہوئے جزیروں سے
کہ آج رات نہ کوئی رہے کنارے پر
یہاں تک آئے ہیں چھینٹے لہو کی بارش کے
وہ رن پڑا ہے کہیں دوسرے کنارے پر
یہ ڈھونڈتا ہے کسے چاند سبز جھیلوں میں
پکارتی ہے ہوا اب کسے کنارے پر
اس انقلاب کی شاید خبر نہ تھی اُن کو
جو ناؤ باندھ کے سوتے رہے کنارے پر
ہیں گھات میں ابھی کچھ قافلے لٹیروں کے
ابھی جمائے رہو مورچے کنارے پر
بچھڑ گئے تھے جو طوفاں کی رات میں ناصر
سنا ہے اُن میں سے کچھ آملے کنارے پر
  احمد مشتاق کا کہنا ہے کہ ناصر کاظمی کی پہلی کتاب ’برگ نے‘ کا سرورق شاکر علی نے بنایا تھا لیکن حنیف رامے نے اصرار کیا کہ سرورق وہ بنائیں گے، ناصر کی حنیف رامے سے بہت دوستی تھی اس لیے انہوں نے اور ناشر نے یہ مطالبہ مان لیا جس پر شاکر صاحب ناراض ہوئے۔
احمد مشتاق نے شاکر علی سے ’مجموعہ‘ کا سرورق  بنانے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا کہ وہ بنا تو دیں گے لیکن یہ نہ ہو کہ بعد میں حنیف رامے اپنا حق جتانے لگے۔ احمد مشتاق نے انہیں یقین دلایا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ شاکر علی نے جو خدشتہ ظاہر کیا وہ ’برگ نے‘ کے تجربے کی وجہ سے بھی تھا اور دوسرے اس باعث بھی کہ ’مجموعہ‘ کے تو ناشر بھی حنیف رامے تھے۔
  ناصر کاظمی کی ڈائری میں بھی احمد مشتاق کا ذکر آتا ہے جس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
*احمد مشتاق کے ساتھ گوالمنڈی میں کباب کھائے۔ 
 * رات کے تین بجے احمد مشتاق کے ہمراہ گھر آیا۔ حفیظ صاحب کو جگایا۔ اور پھر وہیں سو رہے۔
*تحریک خیال کی بنیادی کمیٹی کا اجلاس، شیخ صلاح الدین صاحب صدر۔ احمد مشتاق خزانچی۔ انتظار حسین سیکریٹری۔ حنیف رامے اور شاکر علی نے بھی شرکت کی۔
 *شام کو مشتاق آیا اور میرا کلام نقل کرنے کے لیے لے گیا۔
 سرائے فانی سے رخصت ہونے والے دوستوں کو مختلف انداز میں یاد کیا جاسکتا ہے۔ احمد مشتاق نے ناصر سے محبت کا اظہار یوں کیا کہ  ان کی یاد میں ’ہجر کی رات کا ستارہ‘ کے عنوان سے ایک عمدہ اور یادگار کتاب مرتب کی جو ناصر کی شخصیت اور فن کے بارے میں آگاہی کی گویا کلید ہے۔ ہمارے خیال میں کسی دوست سے محبت اور اسے خراج تحسین پیش کرنے کی اس سے بہتر صورت نہیں ہوسکتی۔
اس کتاب کا جواز احمد مشتاق نے کچھ یوں بیان کیا:
ہمارے یہاں شاعروں اور ادیبوں کو یاد کرنے کا ایک ہی طریقہ چلا آتا ہے کہ سال کے سال اُن کی یاد میں ایک جلسہ کر دیا جائے۔ اس لیے شاید ناصر کاظمی کے سلسلے میں یہ یادگاری مجموعہ آپ کو ایک بدعت نظر آئے۔ مگر شاعر کی یاد میں سال کے سال جلسہ کرنا کوئی ایسا سنجیدہ عمل نہیں بلکہ ایک بے لذت رسم ہے۔ اس بے لذت رسم میں ناصر کاظمی کو دفنا دینا کم از کم مجھے تو گوارا نہیں تھا۔ زیرِ نظر مجموعہ اس رسم سے ہٹ کر شاعر کو یاد رکھنے کی ایک کوشش ہے۔‘
ناصر کاظمی کے انتقال کو گذشتہ ماہ پچاس سال ہو گئے لیکن ان کی شاعری آج بھی زندہ اور ہم عصر ہے۔ یہ عرصہ ناصر کی طبعی عمر سے بھی زیادہ ہے۔ دوسری طرف ایسے شاعر بھی ہوتے ہیں جنھوں نے مرنے کے بعد تو کیا زندہ رہنا ہے حین حیات میں ہی تخلیقی اعتبار سے فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔
گزرے پچاس برسوں میں ناصر کی یاد احمد مشتاق کے ساتھ مسلسل رہی ہے۔ پہلے ان یادوں میں دوسرے دوست بھی شریک تھے لیکن رفتہ رفتہ سب ناصر کے پاس چلے گئے اور  اب ماتم کرنے کو احمد مشتاق ہی رہ گئے۔ ان کے درد کی گہرائی کا اندازہ کرنا ہو تو ان کے قلم سے یہ تراجم  ذرا دیکھیے:
سب کا ماتم میں نے کیا اور سب کو میں نے دفنایا
میرا ماتم کون کرے گا کون مجھے دفنائے گا
(اینا احمتووا)
 پوچھے جو دوستوں کا صبا آ کے نو بہار
کہنا وہ گل تو سب خس وخاشاک ہوگئے
(امیر خسرو)
 چند دن پہلے احمد مشتاق سے فون پر بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان دنوں انہیں ناصر کاظمی  کا یہ شعر بہت یاد آ رہا ہے:
عالم خواب میں دکھائے گئے
کب کے ساتھی کہاں ملائے گئے

شیئر:

متعلقہ خبریں