Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستان میں عام شہری بھی بجٹ کی تیاری میں شامل ہوسکتے ہیں؟

پاکستان میں وفاق اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکومتوں کی تبدیلی کے بعد نئی آنے والی حکمران جماعت کو جو سب سے پہلا چیلنج درپیش ہے وہ بجٹ بنانا ہے۔
وہ بھی ایسا بجٹ جو عوام کی امنگوں کے مطابق ہو تاکہ کوئی ان پر یہ اعتراض نہ کرسکے کہ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی عوام کی خواہشات کے خلاف اقدامات شروع کردیے ہیں۔ 
اس تنقید سے بچنے کے لیے موجودہ حکمرانوں کو سختی سے برسوں پرانی اس روایت پر عمل کرنا چاہیے جس کے تحت بجٹ بنانے سے پہلے اس سے متعلق عوام سے تجاویز مانگی جاتی ہیں اور پھر ان تجاویز کی روشنی میں بجٹ سفارشات تیار کی جاتی ہیں۔ 
صوبہ پنجاب کی سابق حکمران جماعت تحریک انصاف نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کئی ماہ قبل قومی اخبارات میں ایک اشتہار شائع کروایا تھا جس میں عوام سے آئندہ مالی بجٹ 2023-2022 سے متعلق تجاویز مانگی گئی تھیں۔
اسی اشتہار میں عوام کا شکریہ بھی ادا کیا گیا تھا جنہوں نے مالی سال 2022-2021 کے بجٹ میں جو تجاویز دی تھیں ان کی وجہ سے بجٹ کو عوام دوست بنانے میں خاصی معاونت ملی تھی۔    
اب تحریک انصاف کی حکومت تو ختم ہوگئی لیکن یقیناً نئی آنے والی حکومت بھی عوامی تجاویز سے استفادہ کرنے کی خواہاں ہوگی، لہٰذا عام لوگ اپنی تجاویز حکومت کو ارسال کر کے اس عمل میں شامل ہوسکتے ہیں۔  
عوام بجٹ بنانے کے عمل میں براہ راست  کیسے شریک ہوسکتے ہیں؟ 
 ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق عوام سے بجٹ تجاویز لینا ایک قانونی عمل ہے۔  

 ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق عوام سے بجٹ تجاویز لینا ایک قانونی عمل ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مجھے یاد ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بجٹ کے حوالے سے جو قانون سازی کی گئی تھی اس میں عوام سے تجاویز لینے کو بجٹ بنانے کے طریقہ کار میں شامل کیا گیا تھا۔‘    
ان کا کہنا ہے کہ بجٹ بنانے کے عمل کے آغاز سے ہی گاہے گاہے اخبارات میں اشتہارات دیے جاتے ہیں اور عوام سے بجٹ تجاویز لی جاتی ہیں۔  
 پاکستان میں بجٹ تجاویز لینے کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بتایا کہ ’سب سے پہلے محکمہ خزانہ حکومت کے تمام دیگر محکموں کو خط لکھتا ہے کہ وہ اپنے اپنے محکمے کے حوالے سے بجٹ تجاویز دیں جس میں ان کے اخراجات بشمول تنخواہیں اور دیگر تفصیل شمل ہوتی ہے۔
اسی طرح ان کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپنے ذیلی اداروں اور پبلک سیکٹر سے بھی اسی طریقے سے تجاویز اکٹھی کر کے محکمہ خزانہ کو دیں۔    
خیال رہے کہ پاکستان کے وفاقی بجٹ اور صوبوں کے بجٹ بنانے کا طریقہ کار ایک جیسا ہی ہے اور تمام حکومتیں عوام سے تجاویز لینے کی پابند ہیں۔    

پاکستان میں نئی آنے والی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو سب سے پہلا درپیش چیلنج بجٹ بنانا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 عوام کی تجاویز بجٹ بنانے میں کتنی موثر ہوتی ہیں؟  
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بتایا کہ ’عام طور پر انڈسٹری سے متعلقہ عوامی فورم کی تجاویز اہم ہوتی ہیں جیسا کہ چیمبر آفس کامرس میں باقاعدہ ریسرچ ونگ ہوتا ہے۔
’تمام کاروباری افراد اس کے رکن ہوتے ہیں چاہے وہ درآمدات سے ہوں یا برآمدات سے ان کو جس طرح کے مسائل کاروبار کرتے وقت پیش آتے ہیں وہ اس حوالے سے اپنے اپنے چیمبر آف کامرس کو بتاتے رہتے ہیں۔ چیمبر ان پر صلاح مشورے کے بعد اگر ضرورت ہو تو ان کو بجٹ تجاویز میں شامل کر لیتا ہے۔‘    
انہوں نے بتایا کہ عوامی تجاویز کے حوالے سے سب سے اہم سفارشات چیمبرز آف کامرس کی ہی ہوتی ہیں۔ ’اگر آپ بات کریں کہ کیا عام آدمی بھی گھر بیٹھے بیٹھے بجٹ تجاویز بنا کر بھیجتا ہے اور محکمہ فنانس ان کو سنجیدہ لیتا ہے؟ تو میرا خیال ہے اس کو درست سمجھنا ایک احمقانہ بات ہوگی۔  
 ’یہ صرف اس قانونی شق کو پورا کرنے کے لیے کہا جاتا ہے اور اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عوام کو بجٹ بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔‘

’پرویز مشرف کے دور میں عوام سے تجاویز لینے کو بجٹ بنانے کے طریقہ کار میں شامل کیا گیا تھا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق ’ان کا مسئلہ صبح سے شام تک روٹی کمانے کا ہوتا ہے۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ کوئی شخص اخبار میں اشتہار پڑھ کر گھر بیٹھ کے تجاویز بنانے کے بعد ڈاک کے ذریعے محکمہ خزانہ کو اس نیت سے بھیجے گا کہ وہاں بیٹھا کلرک اس ڈاک کو وزیر یا سیکریٹری کی میز پر رکھ دے گا؟‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کا جواب ہے کہ اس عمل میں شفافیت نہیں ہے اور نہ ہی یہ عمل کوئی قابل بھروسہ ہوتا ہے۔ حکومتیں بہرحال اس عمل کو اپنی مشہوری کے لیے استعمال کرتی ہیں۔‘    
تاہم  پنجاب کی سابقہ حکومت  کے ترجمان حسان خاور قیصر بنگالی کی بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ عوام سے تجاویز مانگنا محض خانہ پوری ہے۔  
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مجھے دوسری حکومتوں کا تو نہیں پتا کہ وہ کیا کرتی ہیں لیکن تحریک انصاف نے عوام سے تجاویز لینے کے عمل کو شفاف بنایا تھا۔‘
’لوگوں نے اس عمل میں خاطر خواہ حصہ بھی لیا تھا۔ چاہے کوئی سکول ٹیچر ہے یا کسان، لوگوں نے ٹیکسوں کے حوالے سے اور تنخواہوں کے حوالے سے اپنی سفارشات بھیجی تھیں۔ یہ عمل حوصلہ افزا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ لوگ ہماری حکومت پر بھروسہ کرتے تھے۔‘ 

شیئر: