Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیرہ بگٹی میں ہیضے کی وبا، ’انسان، جانور ایک ہی جوہڑ سے گندا پانی پیتے ہیں‘

’ہمارے علاقے کی گیس پورے ملک کو جاتی ہے مگر ہم پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ جانور پیاس سے مر رہے ہیں، ہمارے بچے ایسا گندا اور بدبودار پانی پینے پر مجبور ہیں جس کے جوہڑ کے قریب کسی دوسرے علاقے کا شخص شاید چند سیکنڈ کے لیے بھی کھڑا نہ ہو پائے۔‘
یہ الفاظ گیس سے مالا مال بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کی سب تحصیل پیرکوہ کے رہائشی محمد بخش بگٹی کے ہیں، جن کے چار بچوں سمیت گھر کے بیشتر افراد گندا پانی پینے کی وجہ سے ہیضہ کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان کا ایک بچہ اب بھی پیرکوہ کے سرکاری ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شدید قے اور مسلسل دست کی وجہ سے بیٹا بہت کمزور ہو گیا ہے اور اس کی آنکھیں تک دھنس گئی ہیں۔
ڈیرہ بگٹی کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر محمد اعظم بگٹی کے مطابق پیرکوہ میں پینے کے صاف پانی کی قلت کی وجہ سے ہیضہ وبائی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس سے اب تک دو افراد کی موت ہوچکی ہے جبکہ 15 سو سے زائد افراد شدید بیمار ہو کر ہسپتال پہنچے ہیں۔
ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر سرفراز احمد بگٹی کا دعویٰ ہے کہ 40 ہزار آبادی والے اس علاقے میں ہیضہ سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔
پیرکوہ کے ایک اور قبائلی رہنما قادر بگٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ ہیضے کی وبا سے اب تک 12 افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ مرنے والوں کے مکمل کوائف شیئر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’ہلاک ہونے والوں میں نو بچے بھی شامل ہیں۔‘
قادر بگٹی کا کہنا ہے کہ متاثرین کی تعداد بھی دو ہزار سے زائد ہے اور روزانہ تین سو سے زائد افراد مختلف سرکاری و نجی ہسپتالوں میں پہنچ رہے ہیں۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر محمد اعظم بگٹی کے مطابق پیرکوہ میں پینے کے صاف پانی کی قلت کی وجہ سے ہیضہ وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے فوری طور پر امدادی ٹیمیں علاقے میں بھیجنے کی اپیل کی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے بھی علاقے کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کوئٹہ سے خصوصی ٹیم ڈیرہ بگٹی بھیجی ہے اور ساتھ ہی خبردار کیا ہے کہ متاثرین کے علاج و معالجہ اور بیماری کے تدارک کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
متاثرہ علاقے کے رہائشیوں نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا ہے کہ ’پیرکوہ کے دو کمروں پر مشتمل سرکاری بنیادی مرکز صحت (بی ایچ یو) میں مریضوں کے لیے جگہ کم پڑ گئی ہے اور مریضوں کو زمین پر لٹا کر علاج فراہم کیا رہا ہے۔‘
حکام کے مطابق صرف منگل کو 121 مریضوں کو پیرکوہ کے دو بی ایچ یوز میں داخل کیا گیا مگر دونوں ہسپتالوں میں مجموعی بستروں کی تعداد 15 سے بھی کم ہے، اس لیے مریضوں کو کرسیوں پر بٹھا کر یا پھر کمرے کے باہر دیوار کے سایے میں زمین پر لٹا کر طبی امداد دینا پڑ رہی ہے۔
ڈی ایچ او ڈیرہ بگٹی محمد اعظم بگٹی کا کہنا ہے کہ ہم نے علاقے میں خصوصی ٹیمیں بھجوائی ہیں۔ بہت سے ایسے مریض بھی دوبارہ بیمار ہو کر ہسپتال کا رخ کررہے ہیں جنہیں تین چار دن پہلے طبی امداد فراہم کی گئی کیونکہ لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں اور وہ جوہڑوں کا گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پیرکوہ کے لوگوں کو علاقے میں کام کرنے والی نیم سرکاری گیس کمپنی او جی ڈی سی ایل پانی فراہم کرتی ہے۔
یہ پانی پتھر نالہ نامی برساتی نالے سے پمپنگ مشینوں کے ذریعے تالاب میں جمع کرنے کے بعد تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہم نے اس پانی کا لیبارٹری ٹیسٹ کرایا تو معلوم ہوا کہ یہ انسانی استعمال کے قابل ہی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گیس کمپنی کو چاہیے تھا کہ وہ تالاب سے پانی کی فراہمی سے پہلے اس میں کلورین شامل کرتی مگر بیماری پھیلنے کے بعد ہماری درخواست کے باوجود بھی کلورین کا استعمال نہیں کیا گیا۔ اب ہم نے یونیسف اور صوبائی حکومت سے درخواست کر کے خود کلورین کا بندوبست کر لیا ہے۔

پیرکوہ کے سرکاری ہسپتال میں جگہ کم پڑنے کی وجہ سے مریضوں کو احاطے میں دیوار کے سایے میں لٹا کر طبی امداد دی گئی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

محمد اعظم بگٹی کا مزید کہنا تھا کہ علاقے کے لوگ پہلے بھی تالابوں اور جوہڑوں کا پانی پیتے تھے مگر پہلے بارشیں ہوتی تھیں تو صورتحال بہتر ہوجاتی تھی۔ اس بار گزشتہ آٹھ مہینوں سے علاقے میں بارش نہیں ہوئی جس کی وجہ سے جوہڑوں میں جمع پانی مزید گندا اور زہریلا بن گیا ہے مگر لوگ اس کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
پیرکوہ کے رہائشی محمد بخش بگٹی کا کہنا ہے کہ پانی تو پہلے بھی کڑوا ہوتا تھا مگر اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے اتنا کڑوا اور گندا ہے کہ کسی اور علاقے میں جانور بھی اسے نہ پیے مگر ہمارے پاس اسے پینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رمضان میں کچھ مخیر لوگوں نے 25 کلومیٹر دور ڈیرہ بگٹی سے پانی کے کچھ ٹینکر بھیجے۔
’عید پر ٹینکر آنا بند ہوئے تو لوگوں نے مجبور ہوکر زہریلا اور کڑوا پانی پینا شروع کیا۔ اس طرح لوگ بیمار ہونا شروع ہو گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ڈیرہ بگٹی تک کا راستہ کچا ہے اور ٹینکر والے ایک ٹینکر کے تین سے چار ہزار روپے مانگتے ہیں جبکہ یہاں کے لوگ انتہائی غریب ہیں وہ خرید نہیں سکتے۔
محمد بخش بگٹی کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقے میں گیس کے درجنوں کنویں ہیں، یہاں سے گیس نکل کر پورے ملک کو جاتی ہے مگر حکومت کی غفلت کا یہ نتیجہ ہے کہ علاقے کے لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی تک نہیں۔
’گرمیوں میں ہم پانی کی ایک بوند بوند کو ترستے ہیں۔ انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ سے گندا پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے آج ہمارے بچے ،خواتین اور جانور بھی مر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ صاف پانی کے لیے جب پانی کا ٹینکر ڈیرہ بگٹی سے آتا ہے تو لوگ اپنا سب کام کاج چھوڑ کر لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر سرفراز احمد بگٹی نے اردو نیوز کو بتایا کہ 70 کی دہائی میں پیرکوہ میں گیس کے ذخائر دریافت ہوئے تو یہاں آبادی بڑھنا شروع ہوئی۔ 2015 تک گیس کمپنی پانی فراہم کرتی رہی اس کے بعد علاقے میں گیس کے ذخائر کم ہونا شروع ہوئے تو کمپنی نے اپنا کام سمیٹنا شروع کر دیا۔

محمد بخش بگٹی کا کہنا تھا کہ صاف پانی کے لیے جب پانی کا ٹینکر ڈیرہ بگٹی سے آتا ہے تو لوگ اپنا سب کام کاج چھوڑ کر لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

ان کا کہنا تھا کہ 2017 میں ہماری صوبائی حکومت نے 30 کروڑ روپے کی لاگت سے ٹیوب ویل لگا کر پیرکوہ کو پانی کی فراہمی کا منصوبہ بنایا جس پر 50 سے 60 فیصد تک کام بھی ہوگیا مگر نئی حکومت کے آنے کے بعد اس پر کام روک دیا گیا۔
سینیٹر سرفراز احمد بگٹی کے مطابق علاقے کے لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کی ذمہ داری بلوچستان حکومت کی ہے اس لیے اس زیر التوا منصوبے کو جلد مکمل کیا جائے اور علاقے کے لوگوں کو مرنے سے بچایا جائے۔
دوسری جانب ڈیرہ بگٹی میں موجود ڈبلیو ایچ او کے پبلک ہیلتھ سرویلنس آفیسر ڈاکٹر داؤد ریاض نے اردو نیوز کو بتایا کہ 20 متاثرہ افراد کے سیمپل لے کر ٹیسٹ کے لیے اسلام آباد کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ بھجوائے جن میں سے 16 میں ویبریوکولرا (ہیضہ) کی تصدیق ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈائریا کی شدید شکل ہے اور اس سے متاثر ہونے والوں کو شدید دست اور قے ہوتی ہے اور جسم میں پانی اور نمکیات کی شدید کمی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر بروقت طبی امداد نہ دی جائے تو چند گھنٹوں میں ہی مریض کی موت ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر داؤد ریاض نے بتایا کہ متاثرہ مریضوں پر عام انٹی بائیوٹیک ادویات بھی اثر نہیں کررہیں۔ این آئی ایچ نے لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد بتایا ہے کہ متاثرہ مریضوں میں صرف دو مخصوص اقسام کے انٹی بائیوٹیک (ٹیٹرا سائیکلین اور سپروکسن) کارگر ثابت ہوسکتی ہیں لیکن ڈیرہ بگٹی کے سرکاری ہسپتالوں اور عام مارکیٹ میں ان ادویات کی قلت ہے۔
ڈاکٹر داؤد ریاض کے مطابق پیرکوہ میں پانچ افراد کی بیماری سے موت ہوئی ہے جن میں دو کے بارے میں تصدیق ہوچکی ہے کہ وہ ہیضہ سے ہوئی ہے جبکہ تین اموات اب تک مشکوک ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ متاثر ہونے والوں میں 60 فیصد خواتین اور بچے ہیں جن کی قوت مدافعت پہلے سے ہی غذائیت کی کمی کی وجہ سے کمزور ہیں۔
ڈاکٹر داؤد ریاض کا کہنا تھا کہ ہیضہ متاثرہ فرد کے فضلے سے پھیلتا ہے۔ اس لیے اسے قابو کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

سینیٹر سرفراز احمد بگٹی کے مطابق علاقے کے لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کی ذمہ داری بلوچستان حکومت کی ہے۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)

’ہم نے صوبائی حکومت کو پیرکوہ کے رہائشیوں کو تین مہینوں تک بلا تعطل صاف پانی فراہم کرنے، کوئٹہ سے خصوصی ریپڈ رسپانس میڈیکل ٹیمیں، ضروری ادویات اور پانی صاف کرنے والے آلات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال ڈیرہ بگٹی میں تین مہینوں کے لیے عارضی ڈائریا ٹریٹمنٹ سینٹر بنانے کی تجاویز دی ہیں۔‘
ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر محمد اعظم بگٹی کے مطابق ضلعی انتظامیہ، محکمہ پبلک ہیلتھ، انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ اور ایف سی نے صاف پانی کے 20 ٹینکرز علاقے میں بھیجے ہیں لیکن صاف پانی کے مستقل انتظام کے بغیر اس بیماری پر قابو پانا مشکل ہے۔

شیئر: