Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کامیاب کھلاڑی بطور کپتان ناکام کیوں ہو جاتے ہیں؟

اچھا ریکارڈ رکھنے والے کھلاڑیوں کی کارکردگی کپتان بننے کے اکثر متاثر ہو جاتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
کرکٹ کا شمار ان چند کھیلوں میں ہوتا ہیں جن میں کپتان پر بہت زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات انفرادی طور پر عمدہ ریکارڈ رکھنے والے کھلاڑیوں کو جب قیادت سونپی جاتی ہے تو وہ توقعات پر پورے نہیں اترتے اور انفرادی کارکردگی بھی کافی حد تک متاثر ہوتی ہے۔ 
حال ہی میں کچھ ایسا ہی انڈین کرکٹ ٹیم کے ساتھ بھی ہوا، جب دنیا کے بہترین کھلاڑیوں میں شمار ہونے والے وراٹ کوہلی کو ٹیم کی ناقص کارکردگی کے باعث کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کرکٹ بورڈ کو مجبوراً انہیں کپتانی سے ہٹانا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ وہ آئی پی ایل کے حالیہ سیزن میں بھی بری طرح ناکام رہے۔  
صرف وراٹ کوہلی ہی نہیں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جو انفرادی طور پر دنیائے کرکٹ میں منفرد مقام رکھتے ہیں لیکن قیادت ملتے ہی وہ متاثر کن کارکردگی سے محروم ہو جاتے ہیں۔    
ویسٹ انڈیز کے برائن لارا، شیو نارائن چندر پال، نیوزی لینڈ کے راس ٹیلر اس کی چند مثالیں ہیں۔  
  اسی طرح پاکستان کے لیے بیشتر ریکارڈ قائم کرنے والے وقار یونس، پاکستان کے رنز مشین کا اعزاز پانے والے محمد یوسف بھی اس فہرست میں شامل ہیں، جنہوں نے بطور کھلاڑی تو اپنا سکہ منوایا لیکن بطور کپتان کارکردگی متاثر کن ثابت نہ ہو سکی۔

1993 میں کھلاڑیوں نے جاوید میاندار کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کر دیا تھا (فوٹو: آئی سی سی)

اسی طرح گذشتہ سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کی شاندار کارکردگی کی قیادت کرنے والے کپتان بابر اعظم پی ایس ایل کے حالیہ سیزن میں اپنی ٹیم کراچی کنگز کی بری کارکردگی کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہے اور بہترین بلے بازی کے باوجود ٹیم کو آخری راونڈ میں لے جانے میں ناکام رہے۔  
انڈیا میں بھی وراٹ کوہلی کے علاوہ سچن رمیش ٹندولکر کا شمار بھی ایسے ہی کھلاڑیوں میں کیا جائے گا، جو شاید اب تک کے سب سے کامیاب بلے بازوں میں تو شامل ہیں لیکن بطور کپتان ناکام رہنے والی ایک بڑی مثال ہیں۔  
دنیا بھر کے کرکٹ بورڈز کپتان مقرر کرتے وقت کئی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود کئی مرتبہ منتخب کپتان معیار پر پورا نہیں اترتے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ میں بطور چیف سیلیکٹر اور کئی دوسرے اہم عہدوں پر کام کرنے والے سابق ٹیسٹ کرکٹر ہارون الرشید کے مطابق کئی اہم کھلاڑیوں کی بطور کپتان ناکامی کی ایک بڑی وجہ ٹیموں میں پنپنے والی بغاوتیں بھی ہیں۔

ایک بہترین کھلاڑٰ ہونے کے باوجود بابر اعظم کراچی کنگز کے کپتان کے طور پر اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے (فوٹو: روئٹرز)

’پاکستان کرکٹ کی تاریخ کپتانوں کے خلاف بغاوت سے بھری پڑی ہے اور ایسی ہی صورتحال انڈیا میں بھی ہے، حالانکہ دونوں کرکٹ بورڈز کپتان مقرر کرتے وقت مختلف صلاحیتیں دیکھتے ہیں لیکن بدقستمی سے ٹیم میں سینیئر کھلاڑیوں کا کپتان مقرر کرنے میں ایک بڑا کردار ہوتا ہے۔‘    
سابق چیف سیلیکٹر کے مطابق ’انڈیا میں کرکٹ ٹیم کا کپتان مقرر کرتے وقت انڈر 19 کرکٹ یا ڈومیسٹک کرکٹ کو بہت ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایجوکیشنل بیک گراونڈ کو بھی دیکھا جاتا ہے اور ایک سلجھے ہوئے میچور کھلاڑی کو کپتان مقرر کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں چونکہ کھلاڑیوں کی تعلمی قابلیت اتنی زیادہ نہیں ہوتی تو اس لیے کپتان بنانے کے بعد کرکٹ بورڈ کو کپتان کو اس حوالے سے بھی تیار کرنا پڑتا ہے۔‘    
ہارون الرشید کے خیال میں ’پاکستان میں کرکٹ بورڈ کپتان مقرر کرتے وقت کھلاڑی کی کارکردگی اور سنیارٹی کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھتا ہے کہ کھلاڑیوں کے درمیان ان کی عزت کتنی ہے اور ان کی قیادت میں کھلاڑی کتنا زیادہ بہتر محسوس کرتے ہیں۔تاہم اس کے باوجود کپتان کو ٹیم پر گرفت رکھنے کے علاوہ کارکردگی دکھانے میں مشکلات پیش آتی رہتی ہیں۔‘ 

عامر سہیل کے خیال میں ضروری نہیں کہ بہترین کھلاڑی کو ہی کپتان مقرر کیا جائے (فوٹو: اے ایف پی)

سابق کپتان اور چیف سیلیکٹر عامر سہیل نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کرکٹ ٹیم کا کپتان چیئرمین کرکٹ بورڈ مقرر کرتا ہے اس میں سیلکشن کمیٹی یا چیف سیلیکٹر کا کبھی کردار نہیں رہا، کبھی کبھار مشاورت یا رائے ضرور کر لی جاتی ہے لیکن یہ فیصلہ چئیرمین کرکٹ بورڈ ہی کرتے ہیں۔‘    
عامر سہیل کے خیال میں ’کپتان مقرر کرتے وقت کھلاڑی کی کارکردگی کے ساتھ کھیل کے بارے میں ان کی معلومات کو بھی دیکھا جاتا ہے۔‘    
  کپتانوں کے خلاف بغاوت کیوں ہوتی ہے؟    
سابق ٹیسٹ کرکٹ ہارون الرشید اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ٹیم میں جب سٹار ویلیو بڑھ جائے تو کپتان کے لیے پریشانیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کی ٹیم میں ’سٹارز‘ کم ہیں اس لیے فی الحال ہمارے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن وراٹ کوہلی ایسی ہی صورت حال کا شکار ہوئے ہیں۔    
انہوں نے کہا کہ ‘جب کپتان اچھا پرفارم کر رہا ہو، اس وقت مسئلہ تو نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی کپتان کی انفرادی کارکردگی متاثر ہو تو ٹیم میں موجود دیگر بہترین کھلاڑی سمجھتے ہیں کہ ان کا حق مارا جا رہا ہے اور جیسے جیسے 15 رکنی سکواڈ میں سٹار کھلاڑی زیادہ ہوتے ہیں تو ہر کوئی خود کو کپتان بننے کا حقدار سمجھتا ہے۔‘

1993 میں جاوید میانداد کے بعد وسیم اکرم کو کپتان بنایا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

 ان کے مطابق’ کچھ ایس ہی ہوا جب کوہلی خود پرفارم نہیں کر پارہے تھے تو روہت شرما، پوجارا اور دیگر کھلاڑیوں نے ایک الگ گروپ بھی بنایا، اور کرکٹ بورڈ کو ٹیم میں بغاوت سے بچنے کے لیے ایسے فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔‘    
انہوں نے ماضی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ‘ماضی میں جاوید میانداد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ کھلاڑیوں نے جب 1993 میں ان کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کیا تو وسیم اکرم کو کپتان بنایا گیا، اور وسیم اکرم کے رویے کو جب دیگر کھلاڑی خراب سمجھنے لگے تو پھر وقار یونس کو لابنگ کے ذریعے کپتان بنایا۔وقار یونس کو کپتان بنائے جانے کے بعد ان کے رویے میں تبدیلی آئی تو پھر ان کے خلاف بھی بغاوت شروع ہو گئی۔‘

سچن ٹنڈولکر بھی بہترین بلے باز تھے لیکن اچھے کپتان ثابت نہیں ہو سکے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

ہارون الرشید کے خیال میں ’آسٹریلیا، انگلینڈ یا نیوزی لینڈ میں سینیئر کھلاڑیوں کا کپتان مقرر کرنے میں اتنا کردار نہیں ہوتا لیکن پاکستان اور انڈیا میں سینیئر کھلاڑی اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اگر کپتان کی اپنی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے لیکن وہ کھلاڑی اگر اس کی قیادت میں بہتر محسوس کرتے ہیں تو بورڈ بھی کپتان تبدیل کرنے کا فیصلہ نہیں کرتا۔‘   
سابق کپتان عامر سہیل اس حوالے سے کہتے ہیں کہ کمزور کرکٹ بورڈ میں ہمیشہ کھلاڑی کپتان بنانے میں مداخلت کرتے ہیں۔
’اگر کھلاڑی کپتان مقرر کرنے میں کوئی مداخلت کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کرکٹ بورڈ کمزور ہے۔‘    
انہوں نے کہا کہ ’سینیئر کھلاڑیوں سے رائے ضرور لینی چاہیے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ لازمی نہیں کہ اپنے بہترین کھلاڑی کو ہی کپتان مقرر کیا جائے۔ ایسا کھلاڑی جو کرکٹ کو بہتر سمجھتا ہو، جسے اپنے کھلاڑیوں کے کی صلاحیتوں کا اندازہ ہو اور میدان میں فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اسے ٹیم کا کپتان بنانا چاہیے۔‘

شیئر: