Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سندھودیش ریوولوشنری آرمی کیا ہے؟

کراچی میں جمعرات کی شب ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری کالعدم سندھودیش ریوولوشنری آرمی نے قبول کی ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک جبکہ 13 زخمی ہو گئے تھے۔
شہر قائد میں گزشتہ 15 روز میں ہونے والا یہ دوسرا بڑا دہشتگردی کا واقعہ ہے جس کی ذمےداری قوم پرست کالعدم تنظیم نے قبول کی ہے۔
سندھ ریوولوشنری آرمی (ایس آر اے) کون ہے اور اس کا کیا پس منظر ہے، اس حوالے سے محکمہ انسداد دہشتگردی کے سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’سندھ میں دہشتگردی میں ملوث قوم پرست کالعدم تنظیم ایس آر اے اور ایم کیو ایم لندن نے کچھ سال قبل براس یا بلوچ نیشنل فریڈم موومنٹ کے ساتھ اتحاد کیا تھا جس کے بعد سے سندھ کے مختلف علاقوں میں اس تنظیم کی جانب سے دہشتگردی کی کارروائیاں جاری ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایس آر اے کا قیام 2010 میں عمل میں آیا تھا۔ ’اس گروپ نے پہلی بار سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ٹرین کی پٹریوں پر حملہ کرنے کے بعد وہاں ایک پمفلٹ پھینک کر دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔‘
محکمہ انسداد دہشتگردی کے سینیئر افسر کے مطابق گذشتہ برس 2021 میں فروری کے مہینے میں سی ٹی ڈی نے خفیہ اطلاع پر قیوم آباد کے قریب کارروائی کرتے ہوئے کالعدم تنظیم ایس آر اے کے کارندے وکاش کمار عرف سونو کو گرفتار کیا تھا۔ ملزم کے قبضے سے دستی بم بھی برآمد ہوا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم پر چینی باشندوں سمیت دیگر شخصیات کی ریکی کرنے اور دہشتگردوں کو پناہ دینے کا الزام ہے۔  
سینیئر صحافی ضیا الرحمٰن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ایک سندھ قوم پرست کالعدم جماعت جئے سندھ متحدہ محاذ کے سربراہ شفیع برفت ہیں جو اس وقت جرمنی میں مقیم ہیں۔
’ کالعدم ایس ایل اے نامی تنظیم میں اختلافات کے بعد ایس آر اے بنائی گئی تھی۔ اس وقت سندھ میں سب سے زیادہ ایس آر اے گروپ فعال ہے جو سندھ میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ گروپ ریلوے ٹریک، سرکاری عمارتیں اور غیر سندھی قومیتوں کو نشانہ بناتے ہیں اس کے علاوہ پاکستان کے قومی دنوں کے موقع پر خاص کارروائیاں کرتے ہیں۔‘
صحافی ضیا الرحمٰن کے بقول ایس آر اے براس اتحاد کا بھی حصہ ہے۔ اس اتحاد کے بعد ان کی کارروائیاں تیز ہوئی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق اس تنظیم کے سربراہ آخری اطلاعات تک افغانستان میں روپوش تھے۔‘ 
یاد رہے کہ سندھ میں کئی علیحدگی پسند تنظیمیں مقبول سندھی قوم پرست رہنما غلام مرتضیٰ سید المعروف جی ایم سید کی پارٹی جئے سندھ قومی محاذ (جسقم) سے نکلی ہیں اور یہ تنظیمیں اپنے نام کے ساتھ ’جئے سندھ‘ لگاتی ہیں۔

پُرتشدد کارروائیوں کے بعد صوبے بھر میں سندھی علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

ان میں اکثریت جی ایم سید کے عدم تشدد کے نظریے پر کام کرتے ہوئے پُرامن طریقے سے سندھ کی آزادی چاہتی ہیں۔ 
تاہم تاحال جئے سندھ کے نام سے صرف دو ہی گروپ عسکریت پسندی میں ملوث پائے گئے ہیں جن میں سے ایک جئے سندھ متحدہ محاذ۔ شفیع برفت گروپ کے زیر انتظام ایس ایل اے اور دوسرا ایس آر اے ہے۔
اس سے قبل بھی سندھی علیحدگی پسند گروہوں نے کراچی میں دو مختلف واقعات میں دوچینی باشندوں کو نشانہ بنایا تھا تاہم وہ محفوظ رہے۔ اس کے علاوہ رینجرزکے اہلکاروں پر بھی حملے کیے گئے تھے۔ 
پُرتشدد کارروائیوں کے بعد صوبے بھر میں سندھی علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تھا جس سے حالات کچھ بہتر ہوئے تھے تاہم اب ایک بار پھر ان تنظیموں کی جانب سے کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں۔
اسلام آباد میں قائم پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز (پی آئی پی ایس) نامی تھنک ٹینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں سندھی علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے سال 2020 میں 10 حملے کیے کیے گئے جن میں سے آٹھ کی ذمےداری سندھو دیش ریولوشنری آرمی (ایس آر اے) نے قبول کی تھی۔
ان حملوں میں زیادہ تر کراچی میں رینجرز اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ ایک واقعے میں جماعتِ اسلامی کی کشمیریوں کی حمایت میں نکالی گئی ریلی پر بھی حملہ شامل تھا۔

اس سے قبل بھی سندھی علیحدگی پسند گروہوں نے کراچی میں دو مختلف واقعات میں دوچینی باشندوں کو نشانہ بنایا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

واضح رہے کہ ایس آر اے کی قیادت سید اصغر شاہ المعروف سجاد شاہ کر رہے ہیں جن کا تعلق لاڑکانہ سے ہے جبکہ شفیع برفت 'جسمم' اور ان سے جڑی 'ایس ایل  اے' کی سربراہی کر رہے ہیں جو جرمنی میں مقیم ہیں۔
دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر وفاقی وزارتِ داخلہ نے مارچ 2013 میں 'جسمم' پر پاپندی عائد کی تھی اور شفیع برفت کا نام مطلوب دہشت گردوں کے کوائف پر مشتمل ریڈ بک میں شامل کیا گیا ہے۔
تقریباً سات سال بعد وفاقی وزارتِ داخلہ نے 'ایس آر  اے' اور 'ایس ایل اے' کے ساتھ ساتھ ایک قوم پرست سیاسی تنظیم جئے سندھ قومی محاذ کے گروپ (آریسر) پر دہشت گردی اور ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے پابندی عائد کی تھی۔ 

شیئر: