Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کا واحد شمشان گھاٹ، ’چینی شہریوں کی بھی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں‘

کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے چینی اساتذہ کی آخری رسومات کراچی ہی میں ہندوؤں کے واحد شمشان گھاٹ میں ادا کی گئی ہیں۔
شمشان گھاٹ کے منتظمین کے مطابق یہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ یہاں مارے جانے والے اساتذہ کے علاوہ طبی موت مرنے والے چینی باشندوں کی رسومات بھی ادا کی جاتی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی 55 لاکھ ہے جبکہ ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ملک کی ہندو آبادی 80 لاکھ سے بھی زائد ہے۔
آبادی کے لحاظ سے ہندو پاکستان کی سب سے بڑی اقلیت ہیں جن کا 93 فیصد صوبہ سندھ میں آباد ہے۔
سنہ 1941 کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی 51.1 فیصد آبادی ہندوؤں پر مشتمل تھی۔ پاکستان بننے کے بعد ہندوؤں کی بڑی تعداد کے یہاں سے چلے جانے اور انڈیا سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کی آمد کے بعد یہ تعداد کم ہو کر 1.7 فیصد رہ گئی۔
سنہ 1998 کی مردم شماری کے مطابق کراچی میں دو لاکھ 50 ہزار ہندو آباد تھے۔
اگرچہ 2017 کی مردم شماری میں اقلیتوں کی آبادی الگ سے ظاہر نہیں کی گئی لیکن ہندو برادری کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ اس وقت کراچی میں ان کی آبادی 20 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
چین جہاں بدھ مت کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، وہاں مرُدوں کو جلانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
چینی وزارت برائے سماجی امور (منسٹری آف سول افیئرز) کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں ملک میں مرنے والے 90 لاکھ 77 ہزار افراد میں سے 40 لاکھ 46 ہزار کو جلایا گیا۔

مہاراج رام ناتھ کے مطابق شمشان گھاٹ میں چھ افراد کو اگنی دینے کی گنجائش موجود ہے (فوٹو: اردو نیوز)

کراچی کے ’دی ہندو کریمشن گراؤنڈ‘ کے نام سے واحد شمشان گھاٹ کی انتظامی کمیٹی کے رکن مہاراج رام ناتھ نے اردو نیوز کو بتایا کہ کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ کی آخری رسومات پیر کو شروع ہوئیں اور ان میں تین دن لگے۔ اس دوران پولیس کی سکیورٹی ٹیم شمشان گھاٹ میں موجود رہی۔
انہوں نے بتایا کہ اگر یہاں بہتر نظام ہوتا تو آخری رسومات کی ادائیگی میں بہت آسانی رہتی اور یہ دنوں کے بجائے گھنٹوں میں انجام پاتیں۔
’سی پیک منصوبے کی شروعات کے بعد چینی باشندوں کی بڑی تعداد یہاں مقیم ہے اور ان کی آخری رسومات ان کے مذہبی عقائد کے مطابق یہاں پر ادا کی جاتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس جگہ کو مزید سہولیات سے آراستہ کیا جائے۔‘
مہاراج رام ناتھ کے مطابق انہوں نے اس ضمن میں اعلیٰ حکام کو خط بھی لکھا ہے لیکن اب تک اس کا کوئی خاطرخواہ جواب نہیں ملا ہے۔ اگرچہ زبانی یقین دہانی ضرور کروائی گئی لیکن کاغذی کارروائی شروع نہیں ہو سکی ہے۔
کراچی کے علاقے پاک کالونی میں مسلمانوں کے قبرستان سے متصل اس قدیم شمشان گھاٹ میں آج بھی پرانے طریقے سے لکڑی اور گھی کے استعمال سے مرنے والوں کا اگنی سنگسار کیا جاتا ہے۔
مہاراج رام ناتھ کے مطابق یہاں چھ افراد کو اگنی دینے کی گنجائش موجود ہے۔ ایک مرنے والے شخص کو اگنی دینے کے بعد اگلے 48 گھنٹے تک وہاں کسی دوسرے مردے کو اگنی نہیں دی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ میں ہندو ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن ان کے مقدس مقامات کی خاطر خواہ دیکھ بھال کے لیے طے شدہ فنڈز تک دستیاب نہیں ہیں۔
’کئی درخواستوں کے بعد اب کچھ کام شروع ہوا ہے، لیکن ابھی بھی وہ سہولیات مہیا نہیں کی گئیں جو دیگر ممالک میں آخری رسومات کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔‘
مہاراج رام ناتھ کے مطابق ’ایک مرنے والے کی رسومات کی ادائیگی میں ہمیں دو سے تین روز لگتے ہیں۔ جبکہ اب دیگر ممالک میں اگنی سنگسار کا یہ عمل دو سے تین گھنٹے میں مکمل کر لیا جاتا ہے۔‘

چین جہاں بدھ مت کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، وہاں مرُدوں کو جلانے کو ترجیح دی جاتی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

رام ناتھ کا کہنا تھا کہ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے اپنے پیاروں کی مرضی کے مطابق ان کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں۔
کچھ کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں دفنایا جائے جبکہ کچھ چاہتے ہیں کہ ان کا اگنی سنگسار کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس یہاں شمشان گھاٹ میں دفنایا بھی جاتا ہے اور اگنی بھی دی جاتی ہے۔‘
مہاراج رام ناتھ کے مطابق سندھ کے مختلف علاقوں سے ہندو مذہب کے پیروکار بہتر تعلیم، روزگار اور کاروبار کے سلسلے میں بڑی تیزی سے کراچی منتقل ہو رہے ہیں۔ ان کے مرنے پر بھی ان کی رسومات یہاں ہی ادا کی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا ’اگر ہم شہر میں ہندوؤں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو دیکھیں تو اس تناسب سے یہاں پانچ سے چھ شمشان گھاٹ ہونے چاہئیں۔‘
مہاراج رام ناتھ نے اعلیٰ حکام سے درخواست کی کہ وہ کراچی میں ہندوؤں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ چینی باشندوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے رحجان کو دیکھتے ہوئے اس شمشان گاٹ کو بہتر سہولیات فراہم کریں۔

شیئر: