Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عثمان بزدار آج بھی آئینی وزیراعلٰی لیکن خاموش بیٹھا ہے‘

موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 12 جماعتیں مل کر عوام کو ریلیف نہیں دے سکیں۔
صوبہ پنجاب کے سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ نے خود کو پنجاب کا آئینی گورنر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکمران مخالفین اور قومی اداروں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ ’ان کے رحم و کرم پر ملک کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ‘
پیر کو اسلام آباد میں اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’میرا اس وقت ٹوٹل فوکس وزیراعلٰی پنجاب کو بحال کرنا اور گورنر پنجاب کی لڑائی آئین و قانون کے مطابق لڑنی ہے چاہے اس کے لیے عدالت جانا پڑے۔‘
عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ ’اس وقت جو پنجاب کے اندر آئینی و  قانونی اور سیاسی بحران ہے پنجاب کے اندر ایک آئینی گورنر، ایک آئینی وزیر اعلیٰ موجود ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایک غیر آئینی ایک جعل ساز وزیر اعلیٰ نے اپنے والد جو کہ وزیر اعظم ہیں ان کی طاقت کے ایما کے اوپر پنجاب کے اندر آئین و قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ وہاں پہ وزیر اعلٰی پنجاب کے دفتر اور وسائل پر قابض ہیں اور پوری بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین کو ذاتی ملازم کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘
عمر سرفراز چیمہ نے عثمان بزدار کے استعفیٰ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی تمام تر ذمہ داری سابق گورنر پنجاب پر عائد ہوتی ہے۔ 
انھوں نے کہا کہ ’جب کوئی شخص فوت نہ ہو جائے اس کی موت نہ واقع ہو جائے اس کی جائیداد کی تقسیم کا آپ آرڈر کیسے کر سکتے ہیں۔ ایک بندہ ہٹا کٹا زندہ موجود ہے یعنی چیف منسٹر کا دفتر آئینی طور پر خالی ہی نہیں ہوا۔‘
’ایک تو چوہدری سرور نے غیر آئینی کام غیر طریقے سے استعفیٰ قبول کیا۔ چیف منسٹر بزدار ہے یا جو جماعت ہے وہ تو یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ بزدار کو کہہ دیا ہے کہ اس نے استعفیٰ دے دیا ہے اور گورنر نے قبول کر لیا ہے۔ جس وجہ سے بھی کسی کے کہنے پر کریں یا جیسے کریں جو کرسی پر بیٹھا ہے ذمہ داری اس کی ہوتی ہے غیر آئینی کام کسی کے کہہ دینے سے آئینی نہیں ہو جایا کرتا۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ ’جس طرح پولیٹیکل ری الائنمنٹ ہو رہی تھی،  ہارس ٹریڈنگ ہو رہی تھی قومی اسمبلی میں صوبائی اسمبلی میں۔ تو اس کو دیکھتے ہوئے ایک جماعت نے بطور حکمت عملی یہ سوچا کہ عثمان بزدار کی جگہ کوئی دوسرا جیسے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلٰی کے طور پر لے کر آتے ہیں۔ تاکہ وہ بہتر طور پر سب کو ساتھ لے کر چل سکیں اور گورنینس کے معاملات چلا سکیں۔‘
’اب اس میں اس جماعت کا فیصلہ تو صرف یہ تھا کہ عثمان بزدار استعفیٰ دیں۔ اب عثمان بزدار کا استعفیٰ جو ہے وہ آرٹیکل 130 سب کلاز ایٹ کے تحت وزیر اعلٰی نے اگر استعفیٰ دینا ہے تو وہ گورنر کو اپنا استعفیٰ لکھے گا اور اپنے ہاتھ سے لکھے گا۔ گورنر اس وقت کون تھے چوہدری سرور۔۔ چوہدری سرور اس وقت ایک آئینی عہدے پر بیٹھے تھے چوہدری سرور کی ذمہ داری تھی کہ وہ استعفیٰ ان کی آئینی طور پر ان سے لکھواتے جس طرح سے وہ لکھا ہے وہ دونوں شقوں پر پورا نہیں اترتا۔‘

سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ نے عثمان بزدار کے استعفیٰ کو غیر آئینی قرار دیا۔ (فائل فوٹو)

انھوں نے کہا کہ ’جب میں گورنر بنا تو میں نے فائل منگوائی پہلے تو ہفتہ مجھے فائل ہی نہیں دی گئی۔ جب میں نے زیادہ زور ڈالا تو فائل آئی تو پتہ چلا کہ واقعی یہ تو غیر آئینی قسم کا استعفیٰ تھا۔ اس کے اوپر میں نے ایڈووکیٹ جنرل سے رائے مانگی۔ انھوں نے اپنی رپورٹ دی جو بڑی واضح تھی کہ یہ کسی طور پر بھی آئینی استعفیٰ نہیں ہے۔ میں نے سپیکر کو خط لکھا میں نے استعفیٰ نہ قبول کیا نہ اس کو بحال کیا نہ اس کو ریجیکٹ کیا جو میڈیا کے اندر آتا رہا۔‘
’میں نے صرف ایڈووکیٹ جنرل کی رپورٹ اور استعفیٰ لگا کر سپیکر کو بتایا کہ آئینی طور پر تو اس (وزیر اعلیٰ) نے استعفیٰ ہی نہیں دیا۔ لہذا آئینی طور پر تو یہ آج بھی وزیر اعلیٰ ہے۔ انھوں نے عثمان بزدار کو آگاہ کیا کہ جو آپ نے استعفیٰ دیا ہے وہ غیر آئینی ہے اگر تم نے استعفیٰ دینا ہے تو وہ آئین کے مطابق دینا پڑے  گا۔‘
ان کے مطابق نہوں نے بزدار کو بتایا کہ آج کے دن آپ آئینی وزیر اعلیٰ ہو اس کے اوپر انھوں نے جس دن شام کو جعلی حلف ہوا پنجاب اسمبلی میں کابینہ کا اجلاس بلایا۔
’جب وہ اجلاس کرکے باہر نکلے تو انھوں نے سرکاری مشینری کا استعمال کرتے ہوئے گاڑیاں، وسائل اور دفتر پر قبضہ کر لیا۔ اب وہ بے چارہ شریف آدمی ہے اس دن سے خاموش بیٹھا ہے ظاہر خوفزدہ ہے کیونکہ سسیلین مافیا ہے عام لوگ تو نہیں ہیں۔ یہ وہ مافیا ہے جن سے بڑے بڑے ادارے اور عدلیہ کا جو کردار وہ بھی آپ کے سامنے ہے وہ دیکھ ہی نہیں رہے کہ میں پندرہ دن سے بار بار کہہ رہا ہوں کہ یہ بڑا اوپن اینڈ شٹ کیس ہے۔‘
سابق گورنر پنجاب نے کہا کہ ’میں یہ توقع کر رہا تھا کہ ہماری عدلیہ جو کچھ عرصہ پہلے اتنی چوکنا تھی کہ وہ ایک اداکارہ کے بیگ میں شراب کی بوتل پر بھی سوموٹو لے لیتی تھی۔ ایک طرف اتنے بڑے صوبے کا گورنر بار بار میڈیا کے اوپر آکے بار بار آئین شکنی اور آئین کی جو دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں حقائق سامنے لے کر آ رہا ہے، دعوت دے رہا ہے سب کو وزیر اعظم کو کہہ رہا ہے۔ کم از کم میں تو یہ توقع کر رہا تھا کہ کوئی عدالت وزیراعظم، ان کے بیٹے کو اور مجھے بلا لے اگر تو عدالت کا وقت بھی بچ جائے گا اور دس منٹ کے اندر اس آئینی قانونی بحران کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پنجاب اسمبلی کے حوالے سے ن لیگ نے عدالت سے جھوٹ بول کر اور عدالت کو دھوکا دے کر فیصلے لیے۔ کسی ایک کیس میں مجھے فریق نہیں بنایا گیا۔ عدالت نے ان شواہد کی بنیاد پر غلط فیصلہ دیا جو اس کے سامنے رکھے گئے۔‘
ان کے مطابق اسی وجہ سے اب لارجر بینچ بنا ہے جو اس سب کا از سرنو جائزہ لے رہا ہے۔ ہم آئینی و قانونی طریقے سے اس کی پیروی کریں گے۔

عمر چیمہ نے کہا کہ جس طرح افتخار چوہدری کے ساتھ بدتمیزی کرنے والوں پر مقدمات بنے تھے ان پر بھی بنیں گے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ ’ ان لوگوں کی ذہنیت اور خصلت ہی یہ ہے کہ قومی اداروں کو مخالفین کو ڈرا کے بلیک میل کریں، پہلے منت کرتے ہیں لیکن خیرات نہ ملے پر پھر میمو گیٹ اور ڈان لیکس جیسی سازشیں کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہم ملک چھوڑ سکتے ہیں؟
انھوں نے کہا کہ ’جس طرح عدالتوں کو جھوٹ بول کے ان کو دھوکے میں رکھ کے ان سے راتوں رات فیصلے لے لیتے ہیں۔ جن اداروں کے لیے جس عدلیہ کے میں نے اور آپ نے ماریں کھائی ہیں ان کے عزت و وقار پر انگلیاں کس وجہ سے اٹھ رہی ہیں؟ ان جعلی سازوں کی وجہ سے اٹھ رہی ہیں۔ بدنامی کس کی ہو رہی ہے؟ بدنامی اداروں کی ہو رہی ہے۔ وجہ کون لوگ ہیں؟ وجہ یہ لوگ ہیں یہ مافیا ہے جو بیرونی سازشوں کے سہولت کار ہیں۔‘
موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’12 جماعتیں مل کر عوام کو ریلیف نہیں دے سکیں۔
’نہ ان کے پاس کوئی ایجنڈا ہے اور نہ ہی کوئی تیاری ہے۔ یہ صرف اس لیے آئے ہیں کہ ان کو تین ساڑھے تین سال میں عمران خان سے این آر او نہیں مل سکا۔ اب ان کے پاس آخری آپشن یہ ہے کہ یہ سیاسی شہید ہو جائیں۔ اس کے لیے حالات خانہ جنگی والے پیدا کر رہے ہیں مخالفین پر جھوٹے پرچے کروا رہے ہیں۔ مخالفین کو ہراساں کر رہے ہیں گرفتاریاں کروا رہے ہیں۔ مخالفین پر ناموس رسالت جیسے پرچے کروا رہے ہیں۔ صرف اس لیے کروا رہے کہ حالات خانہ جنگی کی طرف لے جائیں صرف اس لیے کرا رہے تاکہ یہ سیاسی شہید بن جائیں۔‘
انھوں نے پنجاب کی بیوروکریسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پنجاب میں شریف خاندان کے ذاتی ملازم کا کردار ادا نہ کریں یہ لوگ کل بھاگ جائیں گے اور نیب ایف آئی اے کی پیشیاں انھیں بھگتنا پڑیں گی۔
’جس طرح افتخار چوہدری کے ساتھ بدتمیزی کرنے والوں پر مقدمات بنے تھے آپ پر بھی بنیں گے۔ ‘

شیئر: