Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت ختم ہوگئی؟  

آئینی ماہرین کے مطابق حمزہ شہباز کے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کا پراسیس اب اتنا ہی پیچیدہ ہوچکا ہے جتنا اس سے پہلے ان کا الیکشن (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن ٹوئٹر)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک اکثریتی فیصلے کے ذریعے اراکین اسمبلی کے پارٹی لائن سے انحراف کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جس صوبے کے ارکان سب سے زیادہ متاثر ہوں گے وہ صوبہ پنجاب ہے۔ صوبہ پنجاب میں ہی ارکان نے پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا۔ 
پنجاب میں تحریک انصاف کے لگ بھگ 25 اراکین نے وزرات اعلٰی کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا۔ تو اس وقت سوال یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد حمزہ شہباز کی حکومت کہاں کھڑی ہے؟
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس انوار الحق نے بتایا کہ ’اس فیصلے کے بعد پنجاب حکومت ختم ہوچکی ہے کیونکہ جب آپ نے اراکین سے ووٹ ڈالنے کا حق ہی لے لیا اور یہ کہہ دیا کہ آپ ووٹ ڈال ہی نہیں سکتے یا آپ کا ووٹ گنا ہی نہیں جاسکتا۔‘
’اس کا واضح مطلب ہے کہ اگر پنجاب میں حکومت تحریک انصاف کے منحرف اراکین سے ملا کر بنائی گئی ہے تو ان کے ووٹ گنے ہی نہیں جائیں گے۔ کم سے کم جتنی جزئیات سپریم کورٹ کے فیصلے کی ابھی تک سامنے آئی ہیں اس کا مطلب تو یہی ہے۔‘  
ان کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر اس فیصلے کو درست نہیں سمجھتے کیونکہ اس فیصلے سے آئین میں ترمیم کا تاثر سامنے آیا ہے۔ آئین نے ووٹ ڈالنے سے کسی کو نہیں روکا۔‘
دوسری طرف رہنما مسلم لیگ ن عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ’پنجاب میں ابھی حمزہ شہباز کی حکومت ہے اور سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ آنے کے بعد وکلا سے مشاورت کر کے اس حوالے سے لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا۔‘
 

پنجاب میں تحریک انصاف کے 25 اراکین نے وزرات اعلٰی کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا (فائل فوٹو: پنجاب اسمبلی سیکریٹریٹ)

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ بہت سخت فیصلہ ہے جس میں بنیادی حقوق کو ختم کیا گیا ہے۔‘
’مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا سپریم کورٹ کوئی ایسا فیصلہ یا تشریح جاری کرسکتی ہے جو بذات خود آئین سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ آئین نے جب ووٹ ڈالنے کی اجازت دی تو عدالت وہ واپس کیسے لے سکتی ہے۔‘
 انہوں نے کہا کہ ’دوسرا جو سب سے بڑا تضاد اس فیصلے کے اندر ہے کہ جب آپ نے ووٹ ڈالنے سے روک دیا تو پھر نااہلی کی سزا کس بات پر ہوگی اس ووٹ پر جو ڈالا ہی نہیں گیا۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے بیرسٹر احمد پنسوٹا کا کہنا ہے کہ ’اس فیصلے کے بعد پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت اپنی اکثرت کھو چکی ہے۔‘
’اگر وہ خود اقتدار سے علیحدہ نہیں ہوتے تو آئین میں درج طریقہ کار کے تحت جب ان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جائے گا تو اکثریت ثابت نہ کرنے پر خود بخود ان کی حکومت ختم ہوجائے گی۔‘ 

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے صوبے میں گورنر کی نشست خالی ہے جبکہ سپیکر پنجاب اسمبلی قائم مقام گورنر کا عہدہ سنبھالنے سے انکار کرچکے ہیں۔
آئینی ماہرین کے مطابق حمزہ شہباز کو دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کا پراسیس اب اتنا ہی پیچیدہ ہوچکا ہے جتنا اس سے پہلے حمزہ شہباز کا الیکشن، ان کا حلف اور پھر ابھی تک ان کی کابینہ کا نہ بننا ہے۔  
یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان منتخب ہونے کے لیے 186 ارکین کی حمایت ضروری ہے جبکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پاس کل ملا کر 172 اراکین ہیں۔  

شیئر: