Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وزیراعلیٰ پنجاب تو گئے، بس ویسٹ انڈیز سیریز اب پنڈی میں ہی رہنے دو‘

حمزہ شریف اپنی جماعت اور اتحادیوں سمیت دیگر اراکین کے ووٹ لے کر وزیراعلی منتخب ہوئے تھے۔ (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
ٹوئٹر کو سوشل میڈیا کا ایسا پلیٹ فارم شمار کیا جاتا ہے جہاں ایکٹوازم کا رنگ ہر موسم میں غالب رہتا ہے، اس کے باوجود مائکروبلاگنگ پلیٹ فارمز سنجیدہ موضوعات کے بجائے ہلکے پھلکے موضوعات میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔
البتہ پاکستان میں منگل کی شام کو ٹوئٹر کی ٹرینڈز لسٹ اس وقت نسبتا جدا منظر پیش کر رہی تھی جب سرفہرست ٹرینڈ ’سپریم کورٹ‘ ایک آئینی معاملے کی تشریح سے متعلق تھا۔
یہ وہ لمحہ تھا کہ جب پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی جانب آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سنایا گیا۔
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے میں کہا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے 3-2 سے رائے دی۔
عدالت عظمی کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا کہ منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ منحرف ارکان کی تاحیات نا اہلی کے لیے قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، انحراف کی نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے۔
پاکستانی میڈیا پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی ابتدائی تفصیل سامنے آنے کے بعد کہیں سابق وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو مبارکباد دی گئی، قانونی ماہرین میں سے کچھ نے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا تو کئی افراد مٹھائیاں بانٹتے ہوئے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دیے۔
پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے فیصلے پر اپنے حامیوں کو مٹھائی کھلائی تو اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر بھی کی۔
خاتون ٹیلی ویژن میزبان نادیہ مرزا نے فیصلے کے تناظر میں سوال کرتے ہوئے لکھا کہ ’مطلب منحرف اراکین کا ووٹ لے کر وزیراعلی بننے والے حمزہ شہباز اب وزیراعلی نہیں رہے؟‘

تحریک انصاف رہنما اسد عمر نے اپنی ٹویٹ میں ’پاکستانی عوام کو مبارک باد‘ دیتے ہوئے ’لوٹے فارغ‘ ہونے کی اطلاع دی۔
انہوں نے مزید لکھا کہ پنجاب حکومت کا جواز ختم، وفاقی حکومت فوری طور پر استعفیٰ دے۔

ٹیلی ویژن میزبان ناصر بیگ چغتائی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک پہلو کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی کی خواہش ناتمام۔ صدر کے ریفرنس کا چوتھا سوال صدر کو واپس۔‘

خاتون لکھاری عفت حسن رضوی نے اپنے تبصرے میں معاملے کو ’ملک کا خسارہ‘ قرار دیا۔
انہوں نے لکھا کہ ’سپریم کورٹ فیصلے کے بعد گذشتہ چار ماہ کی پاکستانی سیاست کو دوبارہ دیکھیے، لوٹوں کے بازار کو دیکھیے، سندھ ہاؤس میں منحرفین کےاکٹھ کو دیکھیے، منحرف ارکان کی بارگین کو دیکھیے، سیاسی جماعتوں کا کیا ہے باریاں لے کر پھر آجائیں گی۔‘

سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک آئینی معاملے پر اور سیاست کے نسبتا سنجیدہ پہلو سے متعلق تھا لیکن سوشل میڈیا پر آتے ہی اس پر معمول کے مطابق ہلکے پھلکے انداز کے تبصروں کا سلسلہ زیادہ دیر رکا نہیں رہ سکا۔
دو دہائیوں بعد پاکستان کے دورے پر آنے والی آسٹریلوی ٹیم کے میچز ملک کے سیاسی حالات کے پیش نظر مارچ کے مہینے میں راولپنڈی سے لاہور منتقل کر دیے گئے تھے۔ اس پس منظر کو موضوع بناتے ہوئے ماریہ راجپوت نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ’وزیراعلی پنجاب تو گئے۔ بس ویسٹ انڈیز سیریز اب راولپندی میں ہی رہنے دو۔‘

پاکستان میں دس اور 11 اپریل کی درمیانی شب عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے بعد تحریک انصاف کی وفاقی حکومت ختم ہو گئی تھی۔ جس کے بعد مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام سمیت متعدد اتحادی جماعتوں کے اشتراک سے نئی حکومت قائم ہوئی۔
وفاق کے بعد آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں بھی حکومت تبدیل ہوئی جہاں مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کے نامزد کردہ حمزہ شریف اپنی جماعت اور اتحادیوں سمیت دیگر اراکین کے ووٹ لے کر وزیراعلی منتخب ہوئے تھے۔

شیئر: