Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کابینہ کی تشکیل میں تاخیر، پنجاب میں کن منصوبوں کو نقصان؟

وزیراعلٰی حمزہ شہباز کابینہ کے بغیر ہی حکومتی معاملات دیکھ رہے ہیں۔ (فوٹو: حمزہ شہباز فیس بک)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے حکومت مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکی جس کی بڑی وجہ ابھی تک کابینہ بنانے میں ناکامی ہے۔
وزیراعلٰی حمزہ شہباز کابینہ کے بغیر ہی حکومتی معاملات دیکھ رہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس صورت حال کا صوبے کو سب سے زیادہ نقصان معاشی طور پر اٹھانا پڑ رہا ہے۔
محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ پنجاب کے ایک اعلٰی افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ وزرا کے نہ ہونے کی وجہ سے سارا کام سیکریٹریز، چیف سیکریٹری اور وزیراعلٰی پنجاب کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’صوبے کا نظم و نسق چاہے وہ فنڈز کی ریلیز ہو یا پالیسیز اور فیصلے ہوں وہ متعلقہ وزارتوں  کے ذریعے چلتے ہیں۔ سمری وزیر سے سیکریٹری، سیکریٹری سے چیف سیکریٹری سے ہوتی ہوئی وزیراعلٰی تک جاتی ہے۔ اب وزراء کے نہ ہونے کی وجہ سے محکموں کے تمام فیصلے سیکریٹریز کر رہے ہیں تاہم یہ چھوٹی نوعیت اور روز مرہ کے معاملات ہیں کیبنٹ کے بغیر جیسے صوبہ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ بہت مشکل ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پچھلی حکومت کے شروع کیے گئے کئی ترقیاتی منصوبوں جیسا کہ لاہور میں شاہکام انڈر پاس، ہسپتالوں اور سڑکوں کی اَپ گریڈیشن کے لیے فنڈز جاری نہیں ہو پا رہے ہیں جن کی وجہ سے منصوبوں کو ایک تو تاخیرکا سامنا ہے اور دوسرا ان کی لاگت میں اربوں روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔
’اب تک کے تخمینے کے مطابق صرف منصوبوں میں ہونے والی تاخیر سے 40 سے 50 ارب روپے کا نقصان صوبے کو اٹھانا پڑ رہا ہے اور صورت حال ایسی رہی تو اس میں مزید اضافہ ہو گا۔‘

30 اپریل کو حمزہ شہباز نے وزیراعلٰی کا حلف لیا تھا۔ (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن)

وزیراعلٰی پنجاب کے فوکل پرسن بدر شہباز نے بتایا کہ کابینہ میں تاخیر کی ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وجہ سے صوبے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
’ہم کوشش تو کر رہے ہیں کہ مزید تاخیر کی بجائے اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالا جائے۔ وزیراعلٰی نے حکومت سنبھالتے ہی سسٹم کو کھڑا کیا ہے لیکن کئی ایسے کام ہیں جو صرف کابینہ ہی کر سکتی ہے۔‘
خیال رہے کہ وزیراعلٰی حمزہ شہباز نے یکم مئی سے بطور وزیراعلٰی کام تو شروع کر دیا ہے لیکن صوبے میں گورنر نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی کابینہ نہیں بنا پا رہے ہیں۔ سپیکر صوبائی اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے قائم مقام گورنر کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالنے سے انکار کر رکھا ہے۔

چوہدری پرویز الٰہی نے قائم مقام گورنر بننے سے انکار کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیس اسلم سمجھتے ہیں کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی صورت حال ہے جس سے پہلے ملک اور اب پنجاب کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس سیاسی عدم استحکام کا نتیجہ معاشی عدم استحکام پر ہی منتج ہو گا۔ بیوروکریسی کبھی بھی فنڈز جاری نہیں کرے گی جس سے جاری ترقیاتی منصوبوں کی لاگت میں اضافہ ہو گا یہ ایک بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ محکموں کے پاس آگے بڑھنے کی پالیسی نہیں ہے۔ فیصلہ سازی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صوبے میں سرمایہ کاری کرنے والے بھی ہاتھ کھینچ کے بیٹھے ہیں۔ آپ باقی نقصان کا تخمینہ تو لگا لیں گے لیکن اس نقصان کا تخمینہ لگانا بھی مشکل ہے۔ کیونکہ ایک فنکشنل حکومت ہی سرمایہ کاری کے نئے راستے تلاش کرتی ہیں اور سرمایہ کاری کے یہ مواقع آپ سسٹم سے باہر رہ کے نہیں دیکھ سکتے۔‘

شیئر: