Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہ پاکستانی شہری نہیں؟‘ سوشل میڈیا پر علی وزیر اور شیریں مزاری زیر بحث

علی وزیر دسمبر 2020 سے کراچی جیل میں قید ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ہفتے کو اسلام آباد میں پولیس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن اور سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کو پنجاب اینٹی کرپشن ڈپیارٹمنٹ کی درخواست پر ڈیرہ غازی خان میں اراضی غیرقانونی طور پر بوگس کمپنیوں کو منتقل کرنے اور ریکارڈ ٹیمپر کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔
تاہم رات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ان کی بازیابی کی ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔
واضح رہے شیریں مزاری بحیثیت رکن قومی اسمبلی استعفیٰ دے چکی ہیں لیکن ان کا ستعفیٰ ابھی منظور نہیں ہوا ہے۔ قوانین کے مطابق کسی بھی رکن قومی اسمبلی کی گرفتاری سے قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قومی اسمبلی کے سپیکر سے اجازت لینا ہوتی ہے۔
شیریں مزاری کی گرفتاری اور رہائی گذشتہ روز سے سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے اور صارفین کی ایک بڑی تعداد ان کا موازنہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر سے کر رہی ہے۔
واضح رہے علی وزیر کو ان کی 2018 میں کراچی میں کی گئی ایک تقریر میں ریاستی اداروں کے خلاف مبینہ طور پر توہین آمیز زبان استعمال کرنے پر دسمبر 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
علی وزیر کے خلاف ایک جیسے الزامات پر تقریباً چار کیسز دائر کیے گئے تھے جن میں دو میں ان کو ضمانت مل گئی ہے لیکن اس کے باوجود وہ کراچی جیل میں قید ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین علی وزیر کی قید اور شیریں مزاری کی رہائی کو انصاف کا دہرا معیار قرار دے رہے ہیں۔
اسی معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے ریما عمر نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’علی وزیر گذشتہ 18 ماہ پہلے ایک تقریر کی وجہ سے گرفتار ہوئے تھے۔ وہ اب بھی حراست میں ہیں۔‘

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ نے علی وزیر کی ایک تصویر ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’کیا یہ پاکستانی شہری نہیں؟‘

انس ٹیپو نامی صارف نے طنزیہ طور پر لکھا کہ ’علی وزیر کو بالوں کا نیا ہیر سٹائل بنوانا چاہیے اور پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کرنا چاہیے، کیا پتہ پھر انہیں چند گھنٹوں میں رہا کر دیا جائے۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما فرحت اللہ بابر نے شیریں مزاری کیس میں عدالتی کارروائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ’شکریہ یہ باور کروانے کے لیے کوئی بھی رکن قومی اسمبلی سپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔‘
انہوں نے لکھا ’سوال اٹھتا ہے کہ کیا علی وزیر پچھلے ایک سال سے پنجرے میں سپیکر کی اجازت سے بند ہیں؟‘

اس حوالے سے صحافی ضیا الرحمان نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’ویسے ٹوئٹر پر موجود ہمارے دوست علی وزیر کی رہائی کے معاملے میں انہیں پی ٹی آئی جوائن کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں مگر پی  پی پی کی سندھ حکومت کے پراسیکیوٹر اور پولیس کے کردار پر کچھ نہیں کہہ رہے جو علی وزیر کو آئے دن نئے کیسوں اور عدالتی چکروں میں لٹکائے ہوئے ہیں۔‘

واضح رہے پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے علی وزیر 2018 کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے حلقے این اے 250 سے کامیاب ہوئے تھے۔

شیئر: